فلسطین علاقوں پر اسرائیلی قبضہ کا خاتمہ ضروری

   

رادھا کمار
اسرائیل ۔ حماس جنگ شروع ہوئے دو ماہ کا عرصہ گذرچکا ہے اس جنگ میں 18 ہزار سے زائد فلسطینی اور تقریباً 1200 اسرائیلی اپنی زندگیوں سے محروم ہوچکے ہیں جبکہ ہنوز 136 اسرائیلی یرغمالی حماس کے قبضہ میں ہیں۔ اس جنگ کی تباہی و بربادی اور اس کے بدترین ہونے کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ گزشتہ کئی دہوں کے دوران جو جنگیں ہوئی ہیں ان جنگوں میں مجموعی طور پر جتنے بچوں کی ہلاکتیں ہوئی صرف اس جنگ میں ان جنگوں سے کہیں زیادہ بچے شہید ہوئے ہیں ( غزہ میں 7700 سے زائد فلسطینی بچوں کی شہادت ہوئی ) اقوام متحدہ کے مطابق غزہ کی 2.3 ملین ( 23 لاکھ آبادی ) آبادی میں سے 1.7 ملین ( 7 لاکھ آبادی ) لوگ بے گھر ہوئے ہیں اور ایسا پہلے نہیں ہوا بلکہ وہ اپنی ہی سرزمین میں 3 مرتبہ گھروں سے بے گھر ہوئے ہیں پہلے اسرائیل سے غزہ فرار ہونے پر مجبور ہوئے اور جب شمالی غزہ میں بموں کی بارش ہوئی اس تباہی سے بچاؤ کیلئے انہیں مجبوراً جنوبی غزہ فرار ہونا پڑا وہاں پر بھی اسرائیل کے لڑاکا طیاروں نے ان کا تعاقب کیا ان پر بے دریغ انداز میں بم برسائے گئے اب انہیں جنوبی غزہ سے بھی فرار ہونے کیلئے مجبور کیا جارہا ہے جس کے نتیجہ میں 6 کلو میٹر تک پھیلے ہوئے کس قدر محفوظ علاقہ میں وہ پناہ لینے پر مجبور ہورہے ہیں ۔ 6 کلو میٹر کے علاقہ میں لاکھوں کی تعداد میں مصیبت زدہ فلسطینیوں کی پناہ لینا وہاں پیدا ہورہے انسانی بحران کی ایک بدترین مثال ہے ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ حماس کے جنگجووں نے 7 اکٹوبر کو اسرائیل پر ہلاکت خیز حملے کئے ۔ قتل و غارت گیری کا بازار گرم کیا لیکن اس کے جواب میں ایسا لگتا ہے کہ اسرائیل کے سر پر خون سوار ہوگیا ہے ۔ اس نے غزہ پر بڑے پیمانے پر فوجی کارروائی کی تقریباً غزہ کے شہروں خاص طور پر رہائشی علاقوں کو اس نے ملبہ کے ڈھیر میں تبدیل کردیا ۔ اسرائیل نے غزہ پر بموں کی بارش کردی ، اسپتالوں ، اسکولوں اور پناہ گزین کیمپوں کو بھی اس نے نہیں چھوڑا نتیجہ میں سکریٹری جنرل اقوام متحدہ انٹونیوگوئیرس کو اس عالمی ادارہ کے چارٹر کی دفعہ 99 کے تحت سلامتی کونسل کا ہنگامی اجلاس طلب کرنا پڑا ۔ پچھلے چالیس برسوں میں ایسا پہلی مرتبہ کیا گیا لیکن افسوس صد افسوس جب بھی سلامتی کونسل میں اسرائیل ۔ حماس فوری جنگ بندی کیلئے قرارداد منظور کی گئی امریکہ نے ان قراردادوں کو بناء کسی تاخیر کے ویٹو کردیا ۔ یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہوگا کہ انٹرنیشنل کریمنل کورٹ (ICC) کے سابق پراسیکوٹر جنہوں نے 2021 میں جنگی جرائم اور یہودی آباد کاروں کے تشدد کی تحقیقات شروع کی تھی اس بات پر زور دیا ہیکہ حماس کے اسرائیل پر حملہ اور اس پر اسرئیل کی جوابی کارروائی کو قتل عام اور انسانیت کے خلاف جرائم تصور کیا جاسکتا ہے لیکن انٹرنیشنل کریمنل کورٹ کے موجودہ چیف پراسیکویٹر کریم خان نے رفج کرائسنگ کا دورہ کیا اسرائیل اور پھر مغربی کنارہ کے دورے کئے ۔ ( انہوں نے اب تک غزہ کا دورہ نہیں کیا ) حیرت کی بات یہ ہیکہ فلسطین حقوق انسانی کی تنظیموں نے ان سے ملاقات سے انکار کردیا ۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ انہوں نے رفج اور مغربی کنارہ میں اسرائیل کی برپا کردہ کس تباہی کا مشاہدہ کیا اصل تباہی و بربادی اور قتل عام تو غزہ میں کیا گیا ۔ غزہ تقریباً ملیے کے ڈھیر میں تبدیل ہوچکا ہے اب جبکہ تشدد شدت اختیار کرچکا ہے پوری طرح پھیل چکا ہے ۔ غزہ اور مغربی کنارہ سے فلسطینیوں کو نکالے جانے کا ظالمانہ سلسلہ بھی جاری ہے ایسے میں نتن یاہو نے صاف طور پر یہ کہہ دیا ہے کہ وہ زیادہ تر شمالی غزہ کو ملٹری بفر زون میں تبدیل کرنے کا منصوبہ رکھتے ہیں ان کے مذکورہ بیان کے ایک دن بعد عالمی سطح پر پالیسی سازوں نے اس موضوع پر بات کرنی شروع کی نتن یاہو کی کابینہ نے اس بات کا فیصلہ کیا ہے کہ غزہ میں حماس کو ختم کرنے کے بعد وہاں کا پوری طرح کنٹرول حاصل کیا جائے اور اسے ملٹری بفر زون میں تبدیل کیا جائے گا ۔ ایک اور اہم بات یہ ہیکہ اسرائیل نے عالمی دباؤ کے باوجود مغربی کنارہ میں یہودی آبادیوں کے پھیلاؤ کو روکنے سے انکار کیا اس معاملہ میں آپ کو یہ بتانا ضروری ہیکہ امریکی صدر جوبائیڈن اور نائب صدر کملا ہیریس نے نتن یاہو کے منصوبہ کی مخالفت کی تاہم اس بات سے اتفاق کیا کہ غزہ اور مغربی کنارہ کی سیکوریٹی اس وقت تک اسرائیل کے ہاتھوں میں رہنی چاہئے جب تک اس مسئلہ کا کوئی مستقل حل نہیں نکل پاتا ہیکہ اسرائیل کا غزہ پر سیکوریٹی کنٹرول ہی مسئلہ کی جڑ ہے مسئلہ کا اصل سبب ہے اور دیکھا جائے تو یہ ہیکہ غزہ کے پناہ گزینوں کیلئے سرحدیں کھولنے سے مصر کے انکار نے مزید بڑھ گیا ہے جیسا کہ امن کے جہدکار اوی شیلم نے بار بار زور دیا کہ اسرائیلی وزرائے اعظم نے فلسطین سیکوریٹی پر کنٹرول کے ذریعہ 1992-1993 کو طئے پائے اوسلو معاہدات کو خطرہ میں ڈال دیا اور اسرائیل نے یہ کام یہودی نو آباد کاروں کی نئی نئی بستیاں بسا کر کیا ہے ۔ اسرائیل کے ان وزرائے اعظم کو اس ضمن میں امریکہ ، برطانیہ ، یوروپ یا عرب ملکوں سے معمولی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا ۔ 2011 میں ایک مضمون تحریر کرتے ہوئے پاکستانی کالم نگار عرفان حسین نے جن کے مضامین کا میں گزشتہ چند ہفتوں سے مطالعہ کررہا ہوں بہت ہی تلخ انداز میں لکھا کہ فلسطین کے عرب پڑوسی اور مسلم ممالک کی اکثریت نے فلسطینیوں کو مرنے کیلے چھوڑ دیا ہے اس طرح فلسطینیوں کو بے یار و مددگار چھوڑتے ہوئے ان مسلم ملکوں نے خود اپنے عوام کو ناکام بنادیا جو فلسطینیوں کے حق خود اداریت کی بھرپور تائید و حمایت کرتے ہیں ۔ اوسلو معاہدات کی ناکامی اور مغربی کنارہ کو ایک الگ تھلگ بستی میں تبدیل کر کے رکھ دینا ساتھ ہی وہاں یہودی آباد کاروں کی جانب سے مسلسل خطرہ اس بات کا واضح اشارہ ہیکہ اضافی عمل کچھ کام نہیں کرے گا ہاں حالات کو قابو میں کرنے کیلئے عبوری یا عارضی انتظامات ضروری ہیں اور یہ انتظامات اس مسئلہ کے دیرپا اور مستقل حل کیلئے سیاسی مذاکرات سے شروع کئے جانے سے قبل کئے جانے چاہئے اور ار ایسا ہوتا ہے تو سیکوریٹی کے انتظامات ایک عالمی امن فورس کے حوالے کئے جائیں ۔ جہاں تک نتن یاہو انتظامیہ کا سوال ہے وہ اس طرح کی فورسس کو قبول نہیں کرے گا لیکن امریکہ کے پاس اس امر کی کافی طاقت ہے کہ وہ اسرائیل پر ایسے معاہدہ کیلئے دباؤ ڈال سکتا ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر اس مسئلہ کا آخری حل کیا ہوسکتا ہے ؟ اکثر ملک 1967 کی سرحدوں کے مطابق دو مملکتی حل کے حق میں ہیں لیکن عالمی پالیسیوں پر گہری نظر رکھنے والے تجزیہ نگاروں کی اکثریت کے خیال میں یہ حل اپنی موت آپ مرچکا ہے بعض امن کی وکالت کرنے والوں نے اس بات کا مشورہ دیا ہے کہ دو مملکتی حل اس مسئلہ کا پائیدار حل ہے ۔ ہاں اگر بات تقسیم کی ہوتی ہے تو یہ سب جانتے ہیں کہ تقسیم کا شاذ و نادر ہی کوئی اچھا اور مطلوبہ نتیجہ حاصل ہوا ہو ۔ یہاں تک کہ ان ملکوں میں بھی جنہوں نے اس کو تسلیم کیا اور اس کے کم سے کم برے حل کے طور پر ملے جلے نتائج برآمد ہوئے ہیں جس کے نتیجہ میں اکثر عداوت پر قابو پانے کی بجائے عداوت و دشمنی گہری ہوتی ہے یہ دیکھتے ہوئے کہ یہ واحد قابل عمل حل معلوم ہوتا ہے تاہم کیا اس کے کے منفی نتائج کو کم کرنے سے متعلق کوئی سبق موجود ہے ؟ آپ کو ایک اور بات بتادوں جنوبی ایشیا میں تجزیہ کم ہوتے ہیں لیکن عرفان نے محسوس کیا کہ تقسیم نے پاکستان کو معاشی طور پر فائدہ پہنچایا ۔ کیونکہ ہندوستان سے پاکستان منتقل ہونے والے مسلم اشرافیہ کے بہاؤ نے پاکستان میں فکری اور تکنیکی مہارت اپنے ساتھ لائی جس نے فراخدلانہ معاشی پالیسیوں کے ساتھ مل کر ان علاقوں کو ترقی عطا کی خوشحال بنایا جو پہلے پسماندہ علاقوں میں شمار کئے جاتے تھے ۔ اگر اسرائیل کا قبضہ ختم ہوجاتا ہے تو فلسطینی علاقوں میں اسی طرح کی فکری اور تکنیکی مہارت آسکتی ہے اور فلسطینی علاقوں میں ترقی و خوشحالی کے ایک نئے دور کا آغاز ہوسکتا ہے اس کا فائدہ اسرائیل کو بھی ہوگا وہ مزید مستحکم ہوگا لیکن اس کا زیادہ تر انحصار اس بات پر رہے گا کہ آیا اسرائیل غزہ اور مغربی کنارہ کے مکینوں کیلئے روزگار بحال کرے گا یا نہیں جن کی تنخواہیں یا اجرتیں دونوں ملکوں کی معشیتوں کی ایک چوتھائی کے برابر ہے یہاں ایک بات ضرور کہی جاسکتی ہے کہ ہندوستان اور پاکستان کے منفی اثرات زیادہ ہیں ۔ 1990 اور اس کے بعد جو حالات دیکھے گئے اس کے نتیجہ میں پاکستان میں سلامتی یا صیانت کے شعبہ میں بہت زیادہ سرمایہ مشغول کیا گیا لیکن اسرائیل یا فلسطین کا ایسا معاملہ نہیں ہے کیونکہ اس میں فلسطین اسرائیل کے قبضہ سے آزادی کے نتیجہ میں محفوظ رہے گا اور اسرائیل کا زیادہ تر انحصار پڑوسی ملکوں یا عالمی سیکوریٹی گیارنٹی پر رہے گا ۔ عرفان حسین مزید لکھتے ہیں کہ ہندوستان اور پاکستان کے معاملہ میں ایک دوسرے ڈر نمایاں تھا دونوں میں اعتماد کی بہت زیادہ کمی تھی یہی وجہ ہیکہ دونوں ملک اب بھی کئی مسائل کو باہمی طور پر حل نہ کرسکے اور ہمارے سامنے سیاچن کا مسئلہ اس کی بدترین مثال ہے ۔ سیاچن پر دونوں ملک یعنی ہندوستان اور پاکستان بے تحاشہ خرچ کررہے ہیں جہاں تک مسئلہ فلسطین کا سوال ہے جب تک اسرائیل کا فلسطینی علاقوں پر قبصہ برقرار رہے گا تب تک تشدد برپا ہوتا رہے گا ۔ اسرائیل پر عالمی دباؤ ڈالا جانا بھی وقت کی اہم ترین ضرورت ہے فی الوقت ایسا دباؤ نہیں کے برابر ہے ۔ چند دن قبل مرکزی وزیر خارجہ ایس جئے شنکر نے مسئلہ فلسطین کے دو مملکتی حل کی تائید و حمایت کی تھی لیکن مودی حکومت فوری جنگ بندی اور قبضہ کے خاتمہ کا مطالبہ کرنے والے ملکوں میں ہنوز شامل نہیں ہوئی حالانکہ ہندوستان روایتی طور پر فلسطینی کاز کا حامی رہا ۔