فیض آباد – ایودھیا میں پچاس ساٹھ مساجد ہیں، مسلمان کہیں بھی نماز پڑھ سکتا ہے: ہندو فریق کا مشورہ

,

   

عدالت عظمیٰ میں بابری مسجد تنازع کی آج 39 ویں دن کی سماعت کے دوران ہندو فریق نے اپنی دلیل پیش کرتے ہوئے کہا کہ ایودھیا میں 50 سے 60 مساجد ہیں اور مسلمان کہیں اور بھی جا کر نماز پڑھ سکتے ہیں۔ چیف جسٹس اف انڈیا رنجن گوگوئی، جسٹس ایس اے بوبڈے، جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ، جسٹس اشوک بھوشن اور جسٹس ایس عبد النظیر کی آئینی بینچ کے سامنے ہندو فریق کے وکیل کے پراسرن نے دلیل دی کہ ایودھیا میں 50-60 مسجد ہیں اور نماز کہیں بھی ادا کی جا سکتی ہے، لیکن یہ رام کی جائے پیدائش ہے، اسے ہم کسی بھی حال میں بدل نہیں سکتے۔

پراسرن نے اپنی دلیل میں کہا کہ کسی کو بھی ہندوستان کی تاریخ کو تباہ کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی ہے۔ عدالت کو تاریخ کی غلطی کو ٹھیک کرنا چاہئے۔ ایک غیر ملکی ہندوستان میں آکر اپنے قانون لاگو نہیں کر سکتا ہے۔ انہوں نے اپنی دلیل کا آغاز ہندوستان کی تاریخ کے ساتھ کیا۔ کورٹ کی ہدایت کے بعد وکیل وی پی شرما نے تحریری دلیل کے ساتھ قرآن کے انگریزی ترجمے کی کاپی جج کو سونپی۔ اس کے ساتھ ہی ہندو اور سکھ مذہب کی بھی گرنتھ رجسٹری کو سونپے جائیں گے۔ ہندو فریق کی جانب سے وکیل نے مندر کے ثبوت کے طور پر کچھ دستاویز عدالت کے پیش کرنے کی گزارش کی ہے۔ عدالت کی جانب سے دستاویز رجسٹری کو دینے کو کہا گیا ہے۔ ہندو فریق مہنت رام چندر داس کے شاگرد سریش داس کی جانب سے وکیل پراسرن اپنی دلیلیں دے رہے ہیں۔ ہندو فریق کی طرف نرموہی اکھاڑا بدھ کو اپنی دلیل پیش کرے گا ۔ نرموہی اکھاڑے کے وکیل سشیل جین کی ماں کی موت ہو جانے کی وجہ سے آج وہ عدالت میں اپنی حاضری درج نہیں کرسکے۔