قائد ملت حضرت بہادر یار جنگ ؒ

   

محمد مصطفی جلال(امریکہ)
ہندوستان کی ترقی میں مسلمانوں کا اہم کردار رہا ہے ۔ بالخصوص مسلمانوں میں بے شمار علمی سیاسی اور سماجی شخصیتیں پیدا ہوئیں جنہوں نے نہ صرف مسلمانان ہند کو فکر صحیح سے آراستہ کیا بلکہ آپسی دوستی اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی و اتحاد کو باقی رکھا اسی طریقہ کا ایک اہم باب ہے نواب بہادر یار جنگؒ ہیں ۔ بہادر یار جنگ کی پیدائش 5 مارچ 1905 کو اپنے نانا محبوب خان جمعدار کی دیوڑھی کولساواڑی واقع بیگم بازار میں ہوئی ۔ سارے خاندان میں اس بات کی دھوم مچ گئی کہ وارثِ نصیب یار جنگ پیدا ہوئے لیکن خاندان کا کوئی فرد اس حقیقت سے واقف نہیں تھا کہ اس معصوم نونہال کے ذریعہ امت مسلمہ کی تقدیر بدلنے والی ہے ۔ نام محمد بہادر خان عرف سعدی خان رکھا گیا اور ہفتہ بھر میں ماں تلمین خاتون نے اس وارث حقیقی کو تنہا چھوڑا اور داعی اجل کو لبیک کہا ، نانی فتح خاتون صاحبہ رنج و غم میں مبتلا تھیں ایک طرف جوان بیٹی کی جدائی تو دوسری طرف معصوم نواسے کی پروش ، بیٹی کے غم سے دل اوجھل تھا لیکن دل پر پتھر رکھ لیا اور اس معصوم کی پروش و تربیت کا ذمہ اپنے سر لیا اور مسلسل 14 برس تک علم و مذہب کے ان زیورات سے بہادر یار جنگ کو آراستہ کیا جو آخری سانس تک ان کا سرمایہ رہا ۔ بہادر یار جنگ کی ابتدائی تعلیم سید مصطفے عرف سید صاحب میاں کے پاس ہوئی اور ان کے ہاتھ پر ختم قرآن مجید کیا ، مدرسہ عالیہ میں کنڈرگارٹن میں شریک کردیئے گئے اور تقریباً 5 برس تک اس درسگاہ سے تعلیم حاصل کی ، علامہ سعادت اللہ خان صاحب مندوزئی کے پاس 7 برس کی عمر میں اردو ، فارسی اور عربی کی تعلیم حاصل کی پھر اپنے وقت کے عالم بے بدل حضرت بحر العلوم علامہ سید اشرف شمسی سے نہ صرف اردو اور فارسی کی تعلیم حاصل کی بلکہ احادیث ، تفسیر ، فقہہ اور ادب کی کتب کا بھی مطالعہ کیا ۔
علامہ شمسی سے بہادر یار جنگ کو بڑی عقیدت اور محبت تھی اس واقعہ سے ان کی عقیدت کا علم ہوتا ہے کہ جب بہادر یار جنگ ؒنے خواب میں یہ منظر دیکھا کہ ایک قبر کھودی جارہی ہے اور ہزاروں کا مجموعہ اس قبر کو گھیرا ہوا ہے اور بہادر یار جنگ کو کفن کے ساتھ اس قبر میں دفنا دیا گیا ۔ بہادر یار جنگ نیند سے بیدار ہوئے اس خواب کو دیکھ کر خوف و پریشانی چہرے سے عیاں تھی ۔ نماز فجر کیلئے حسب معمول بیگم بازار سے چنچلگوڑہ علامہ شمسی کے پاس تشریف لائے اور بعد نماز اس خواب کا ذکر کیا تو علامہ شمسی نے مبارکباد دیتے ہوئے کہا کہ بہادر خان تمہیں ہندوستان کے مسلمانوں کی قیادت نصیب ہونے والی ہے ۔ یہی پیشن گوئی سچ ثابت ہوئی اور محمد بہادر خاں جیسے عام بشر کو خدا نے قائد ملت بنایا اور لسان الامت بنایا ۔ آپ کی نانی فتح خاتون دیندار اور خدا پرست ہی نہیں بلکہ مخلص ، معاملہ فہم ، جائیداد کی منتظم اور وکلا سے قانونی مشاورت خود کرتی تھی ۔ وہ اپنے نواسے کو بہادر اور جریج دیکھنا چاہتی تھی اس لئے علم و تہذیب کے علاوہ ہر فن سے آراستہ کرنا چاہتی تھیں ۔
لڑکپن کے زمانے سے ہی بہادر یار جنگؒ کو شکار ، پیراکی ، تلوار بازی اور فٹبال کا شوق تھا ۔ شکار میں انہیں بڑی مہارت حاصل تھی اور ان کا نشانہ کبھی نہیں چونکتا تھا وہ اپنی جاگیر میں اکثر شکار کیلئے جاتے تھے ۔ پیراکی کا بھی انہیں کم عمری سے شوق تھا اور اپنی دیوڑھی کے حوض میں اکثر پیراکی کیا کرتے تھے اور دس برس کی عمر میں انہوں نے اپنے ذاتی سرمایہ سے ایک فٹبال ٹیم بھی قائم کی تھی ۔ فن سپاہ گری اور جسمانی وزرش سے بھی انہیں بڑا تعلق تھا ، قدیم سپاہ گری کی باضابطہ انہوں نے تعلیم حاصل کی تھی اور انہیں اس میں بڑا کمال حاصل تھا ۔ زمانہ کمسنی میں یہ واقعہ درپیش آیا کہ خاندانی دیوڑھی میں نواب صاحب گھر کے کسی فرد کے ہاتھوں کھانا کھارہے تھے کہ ہڈی کا ایک ٹکڑا حلق میں اٹک گیا اور پل بھر کیلئے سانس رک گئی حالات غیر معمولی ہوئے اور ڈاکٹر طلب کیا گیا اور ہڈی نکالی گئی ، نانی یہ حالت دیکھ کر دوڑی ہوئی آئی اور پانی پلاکر گلا سہلاتے ہوئے کہا کہ اس گلا کو کیا ہوا ہے یہ گلا راہ خدا میں قربان ہونے والا ہے ۔ آخر کار نانی کی پیشن گوئی سچ ثابت ہوئی اور 4 رجب کو بہادر یار جنگ کو شہادت حسینی نصیب ہوئی ۔