قرآن کریم، قدیم ترین دستاویز

   

حضرت عمر بن عبد العزیز رحمۃ اللہ علیہ کے عدل و اصلاح کے پروگرام نے بنوامیہ کو بالکل ہی تہی دست کردیا تھا، جس کی وجہ سے ان میں شدید برہمی و ناراضگی پائی جاتی تھی۔ چنانچہ آل مروان نے ہشام بن عبدالملک کو اپنا نمائندہ بناکر حضرت عمر بن عبد العزیز رحمۃ اللہ علیہ سے بات چیت کے لئے بھیجا۔ ہشام نے حضرت عمر بن عبد العزیز رحمۃ اللہ علیہ سے کہا کہ ’’جن معاملات کا تعلق آپ کے دَور سے ہے اور جو واقعات آپ کے زمانے میں پیش آئیں، اُن کے لئے آپ جو چاہیں کریں، لیکن جن معاملات کا تعلق گزشتہ حکمرانوں سے ہے، ان میں تبدیلی نہ کریں، کیونکہ ان کا ثواب یا وَبال ان حکمرانوں پر ہوگا‘‘۔حضرت عمر بن عبد العزیز رحمۃ اللہ علیہ نے جواب میں فرمایا: ’’اگر ایک ہی معاملے میں تمہارے پاس دو دستاویزیں ہوں، ایک حضرت امیرمعاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اور دوسری عبد الملک بن مروان کی، تو تم ان میں سے کس پر عمل کروگے؟‘‘۔ ہشام نے کہا: ’’اس صورت میں حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا مقام عبدالملک سے بہت اونچا ہے، لہذا حضرت امیر معاویہ ؓ کی دستاویز پر عمل کروں گا‘‘۔ اس پر حضرت عمر بن عبد العزیز رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا: ’’پھر میں نے اللہ کی کتاب (قرآن کریم) کو سب سے قدیم دستاویز پایا ہے، اس لئے میں ہر معاملے میں چاہے میرے زمانے کا ہو یا پہلے کا، اسی قدیم ترین دستاویز کے مطابق عمل کروں گا‘‘۔ اس جواب پر ہشام بوکھلا گیا۔اسی طرح کی ایک گزارش سعید بن خالد بن یزید نے کی تھی کہ ’’اے امیرالمؤمنین! جو چیز آپ سے تعلق رکھتی ہو، اس میں آپ بلاشبہ حق و انصاف کے مطابق فیصلہ کریں، لیکن گزشتہ حکمرانوں کے فیصلوں کو ان کی حالت پر رہنے دیں۔ کیونکہ ان کی اچھائی یا برائی کے وہ ذمہ دار ہیں، آپ سے ان کے متعلق نہیں پوچھا جائے گا‘‘۔ اس درخواست کے جواب میں حضرت عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ نے فرمایا: ’’اے سعید بن خالد! میں تم سے خدا کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کہ اگر ایک شخص چھوٹے بڑے لڑکوں کو چھوڑکر مر جائے اور بڑے لڑکے تشدد اور ظلم و ستم سے چھوٹوں کو دَباکر ان کے سارے مال پر قبضہ کرلیں اور پھر چھوٹے لڑکے تم سے مدد کے طلبگار ہوں تو تم کیا کروگے؟‘‘۔ سعید نے کہا: ’’میں ان چھوٹوں کی مدد کروں گا اور ان کے حقوق واپس دِلاؤں گا‘‘۔حضرت عمر بن عبد العزیز رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا: ’’میں بھی تو یہی کام کر رہا ہوں۔ مجھ سے پہلے کے حکمراں، ان کے خاندان والوں، امیروں اور وزیروں نے کمزور رعایا کے حقوق دَبا لئے تھے، اب جب میں خلیفہ ہوا تو کمزور افراد میرے پاس فریاد لے کر آئے۔ اس صورت میں میرے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ ظالم سے مظلوم کا حق واپس دِلاؤں‘‘۔ (تاریخ اسلام سے اقتباس)