قرآن

   

اے گروہ جن وانس! اگر تم میں طاقت ہے کہ تم نکل بھاگو آسمانوں اور زمین کی سرحدوں سے تو نکل کر بھاگ جاؤ (سنو!) تم نہیں نکل سکتے بجز سلطان کے (اور وہ تم میں مفقود ہے)۔(سورۂ رحمن ۳۳)
جنات کو اپنی قوت وطاقت پر بڑا گھمنڈ ہوتا ہے اس لیے یہاں ان کا ذکر صراحت سے کیا اور انسانوں سے پہلے کیا۔ یعنی اگر تم غلط فہمی میں مبتلا ہو کہ تمہیں کوئی نہیں پکڑ سکتا یا اگر تمہیں پکڑنے کے لیے کوئی فرشتہ آیا تو تم کنّی کترا کر دوسری طرف نکل جاؤگے اور ہماری دسترس سے باہر چلے جاؤگے تو اس غلط خیال کو اپنے دل سے نکال دو۔ تم زمین و آسمان سے نکل کر کہیں نہیں جا سکتے۔ جب حشر کے میدان میں تمہیں لا کر کھڑا کیا جائے گا تو ساتوں آسمانوں کے فرشتے تمہارے اردگرد گھیرے ڈال لیں گے۔ کیا ان سات گھیروں کو توڑ کر تم نکل کر کہیں جا سکو گے۔ ساتھ ہی فرما دیا کہ اس گھیرے کو توڑنے کے لیے تو سلطان (قوّت وطاقت) چاہیے۔ تم نحیف وناتواں کب یہ حلقہ توڑ سکتے ہو۔عارف باللہ مولانا پانی پتی فرماتے ہیں۔ بسلطان سے مراد (بسلطانی)’’میری قوت ‘‘ہے۔ یعنی ویسے تو زمین وآسمان کے دائرہ کو توڑ کر نکلنا ممکن نہیں، البتہ میری قوت کسی کو حاصل ہوجائے تو وہ ان حد بندیوں سے باہر نکل سکتا ہے۔یعنی جس طرح نبی پاک (صلی اللہ علیہ وسلم) شب معراج اپنے جسم اطہر کے ساتھ ساتوں آسمانوں سے پار تشریف لے گئے اور صوفی دائرہ ٔامکان سے مدارج قُرب تک نفوذ اللہ تعالیٰ کی طاقت اور قوت سے کرتا ہے۔(مظہری)