قرآن

   

اے نبی (مکرم) ہم نے بھیجا ہے آپ کو (سب سچائیوں کا) گواہ بنا کر اور خوشخبری سنانے والا ۔ (سورۃ الاحزاب : ۴۵) 
گزشتہ سے پیوستہ … یہاں ایک چیز غور طلب ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ تو فرمایا کہ ہم نے تجھے شاہد بنایا لیکن جس چیز پر شاہد بنایا، اس کا ذکر نہیں کیا گیا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر کوئی ایک چیز ذکر کر دی جاتی تو شہادت نبوت وہاں محصور ہو کر رہ جاتی۔ یہاں اس شہادت کو کسی ایک امر پر محصور کرنا مقصود نہیں بلکہ اس کی وسعت کا اظہار مطلوب ہے۔ یعنی حضور (ﷺ) گواہ ہیں اللہ تعالیٰ کی توحید اور اس کی تمام صفات کمالیہ پر، کیونکہ جب ایسی باکمال ہستی اور ہمہ صفت موصوف ہستی یہ گواہی دے رہی ہو کہ لا الہ الا اللہ، تو کسی کو اس دعوت کے حق ہونے میں شک نہیں رہتا۔حضور ؐکی اس شہادت سے وہ سارے حجاب تار تار ہوگئے نیز حضور (ﷺ) اسلام، اس کے عقائد، اس کے نظام عبادات واخلاق اور اس کے سارے قوانین کی حقانیت کے بھی گواہ ہیں۔ اسی کے اتباع میں فلاح دارین کا راز مضمر ہے۔ اور جب قیامت کے روز سابقہ امتیں اپنے انبیا کی دعوت کا انکار کر دیں گی کہ نہ ان کے پاس کوئی نبی آیا اور نہ کسی نے ان کو دعوت توحید دی اور نہ کسی نے انہیں گناہوں سے روکا۔ اس وقت بھرے مجمع میں اللہ تعالیٰ کا یہ رسول انبیاء کی صداقت کی گواہی دے گا کہ الہ العالمین! تیرے نبیوں نے تیرے احکام پہنچائے اور تیری طرف بلانے میں انہوں نے کسی کوتاہی کا ثبوت نہیں دیا۔ یہ لوگ جو آج تیرے انبیاء کی دعوت کا سرے سے انکار کر رہے ہیں۔ یہ وہی لوگ ہیں جنہوں نے اپنے نبیوں کو طرح طرح کی اذیتیں دیں۔ اس کے علاوہ حضور (ﷺ) اپنی امت کے اعمال پر گواہی دیں گے کہ فلاں نے کیا کہا اور فلاں سے کیا غلطی سرزد ہوئی۔