قرآن

   


اے نبی (مکرم) ہم نے بھیجا ہے آپ کو (سب سچائیوں کا) گواہ بنا کر اور خوشخبری سنانے والا ۔ (سورۃ الاحزاب : ۴۵) 
گزشتہ سے پیوستہ … چنانچہ علامہ ثناء اللہ پانی پتی رحمۃ اللہ علیہ اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے لکھتے ہیں :حضور (ﷺ) اپنی امت پر گواہی دیں گے ۔ اپنی اس تفسیرکی تائیدانہوں نے یہ روایت پیش کی ہے: حضرت عبد اللہ بن مبارک نے حضرت سعید بن مسیب سے روایت کی ہے کہ ہر روز صبح شام حضور (ﷺ) کی اُمت حضور پر پیش کی جاتی ہے اور حضور (ﷺ) ہر فرد کو اس کے چہرے سے پہچانتے ہیں ، اسی لئے حضور (ﷺ) اُن پر گواہی دیں گے۔(مظہری) علامہ ابن کثیر اسی آیت کی تفسیر کرتے ہوئے رقمطراز ہیں : حضور اللہ تعالیٰ کی توحید کے گواہ ہیں کہ اس کے بغیر کوئی معبود نہیں اور قیامت کے روز لوگوں کے اعمال پر گواہی دیں گے۔علامہ آلوسی اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے لکھتے ہیں : حضور گواہی دیں گے اپنی امت پر کیونکہ حضور (ﷺ) ان کے احوال کو دیکھ رہے ہیں اور ان کے اعمال کا مشاہدہ فرما رہے ہیں اور روز قیامت ان کے حق میں یا ان کے خلاف گواہی دیں گے۔ (روح المعانی) آگے چل کر علامہ موصوف لکھتے ہیں کہ صوفیاء کرام نے امر کی طرف اشارہ کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے نبی کریم کو بندوں کے اعمال پر آگاہ فرما دیا ہے اور حضور (ﷺ) نے انہیں دیکھا ہے، اس لئے حضور (ﷺ) کو شاہد کہاگیا۔اس قول کی تائید میں علامہ آلوسی نے مولانا جلال الدین رومی قدس سرہ کا یہ شعر نقل کیا ہے:’’در نظر بودش مقامات العباد زاں سبب نامش خدا شاہد نہاد‘‘ کہ بندوں کے مقامات حضور (ﷺ) کی نگاہ میں تھے، اس لئے اللہ تعالیٰ نے آپ کا اسم پاک شاہد رکھا ہے۔