’’قلم ‘‘کی چشم کُشا اہمیت

   

حافظ محمد شعیب
دنیائے علم میں جہاں کتاب پورے شد و مد کے ساتھ اپنی فضیلت کا اعتراف کرواتی ہے، اس سے دو قدم آگے قلم نے بھی اپنی طاقت اور اہمیت کا عَلم نصب کیا ہے۔ یہاں یہ کہنا غیرموزوں نہیں ہوگا کہ دنیا کا نظام قلم ہی کی باعث متوازن ہے۔
قلم کی اہمیت کو دوچند کرنے کیلئے یہ کافی ہے کہ قرآن و حدیث کے پاکیزہ اوراق میں اس کی کارستانی کے تذکرے موجود ہیں۔ سورہ نون میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ’’قسم ہے قلم کی اور اس کی جو کچھ کہ وہ (فرشتے) لکھتے ہیں، قدرت کی نگاہ قسم کیلئے جس پر بھی پڑھتی ہے، خواہ وہ ذرات ہی کیوں نہ ہو، وہ رشک کندن بن جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے انجیر اور زیتون کی قسم کھائی تو وہ میوہ جات میں ممتاز ہوگئے۔ قرآن کریم میں متعدد چیزوں کی قسم ملتی ہے۔ منجملہ ان میں سے قلم کو بھی یہ اعزاز حاصل ہے۔
تعلیم کے فروغ میں قلم خشت اول کی حیثیت رکھتا ہے۔ قرآن کریم کی ابتدائی آیتوں میں قلم کی عظمت کو دو بالا کرتے ہوئے زبان حق گویا ہے: ’’جس نے قلم کے ذریعہ علم سکھایا اور اس نے انسان کو وہ کچھ سکھایا جسے وہ نہیں جانتا تھا‘‘۔ (سورۂ علق)
اگر ہم قلم کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو حدیث شریف ہمیں مقصود تک رہنمائی کرتی ہے۔ جامع ترمذی میں حدیث پاک ہے۔ حضرت عبادہ بن صامت ؓسے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے قلم کو پیدا کیا، پھر اس کو لکھنے کا حکم دیا۔ قلم نے عرض کیا : ائے اللہ میں کیا لکھوں؟ رب العزت کی بارگاہ سے جواب ملاکہ تقدیر لکھو۔بس اسی قلم سے وہ سب کچھ لکھا جو گزر چکی ہیں اور ان سب چیزوں کو لکھا جو آئندہ ہونے والی ہیں۔ (ترمذی)
اگر مادی دنیا میں ایجاد قلم کے موضوع پر مطالعہ کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ادریس علیہ السلام قلم کے اول موجد ہیں۔ آپ علیہ السلام نے ہی سب سے پہلے قلم سے لکھا۔ (البدا یہ النہایہ )
قلم کو ہر دور میں قدر کی نگاہ سے دیکھا گیا ہے۔ اصحاب علم اور دانشوران ابتداء سے اس کو اپنے میز اور جیب کی زینت بناتے رہے ہیں۔ قلم نے تحریر کے معاملے میں سبقت کرکے ذمہ داری لی اور اس کو منتہائے کمال تک پہنچایا۔ اللہ نے اپنی مشیت کو لوح محفوظ پر دیکھنا چاہا تو قلم نے ہی اس بار جلالت کو برداشت کیا۔ جمع قرآن کا مرحلہ آیا تو قلم نے آگے بڑھ کر اس کار سعادت کیلئے اپنے وجود کو پیش کیا۔ تدوین حدیث کی باری آئی تو قلم نے مزید عقیدت سے جھک کر نیاز مندی پیش کی۔ قلم نے فقہ اور اصول فقہ کے نادر نگینوں کو صفحہ قرطاس پر بکھیرا۔ تاریخ کے نامور اہل ظرف، حکماء، علماء، فقہاء، بزرگوں اور پیشواؤں کی سوانح کو ضبط ِ تحریر میں محفوظ کیا۔ بادشاہوں، جہاں بانوں اور فرماں رواؤں کی داستان حیات کی تصویرکشی کی اور خودپسند، سنگ دل، سیاہ ماضی، ظالم حکمرانوں اور سورماؤں کا انجام بد اور تباہی کے واقعات کو قلم بند کرکے دنیا کے سامنے درس عبرت پیش کیا۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ قلم ہی کی بدولت کتاب معرض وجود میں آئی۔ اگر قلم کتاب کے سینہ پر طبع آزمائی نہیں کرتا اور اس کے اوراق پر الفاظ و جمل کی مصوری نہیں کرتا تو وہ سادہ لوح کی گٹھڑی سے کبھی باہر نہ آتی۔ اس کے سر پر کتاب کا سہرا نہیں چڑھتا اور وہ کتب خانوں، درس گاہوں اور طالب علم کے پہلوؤں کی زینت نہیں بنتی۔
قلم نہ ہوتا تو علم محفوظ نہ ہوتا۔ قرآن مکتوب نہ ہوتی۔ لوح محفوظ مشیت ایزدی سے مرصع نہ ہوتا۔ فرمودات نبویؐ مدون نہ ہوتے۔ سیرت طیبہ کے دلچسپ اور ایمان افروز شب و روز عاشق بسمل کے ہاتھوں تک نہیں پہنچ پاتے۔ اصلاحی اور اخلاقی مضامین کا رواج نہ ہوتا۔ علمی، ادبی، طبی، فنی، سماجی اور اقتصادی موضوعات پر پڑھے گئے مقالے دیوارت ٹکرا کر زوال پذیر ہوجاتے اور قانونی آرٹیکلس کا شیرازہ بکھر جاتا۔
جس کا لازمی نتیجہ یہ ہوتا کہ مذہبی عقائد و نظریات پر دھول جم جاتی، مذہب و ملت کا خط امتیاز مٹ جاتا، اخلاق و کردار کا تصور بھلا دیا جاتا، تہذیب و تمدن کا تختہ اُلٹ جاتا۔ امن و سلامتی کی کہانیاں نہیں سنی اَن سنی ہوجاتی ، شرافت کی حس اور انسانیت کی رمق راہ فرار اختیار کرلیتی، ظلم و بربریت کا بازار گرم ہوجاتا۔ یہاں تک کہ انسانیت نیم حیوان ہوجاتی اور بشریت کے لباس میں وحشت کا قبضہ ہوجاتا۔ مذکورہ بالا سطور سے قلم کی طاقت اور اہمیت سورج کی طرح نمایاں ہونے کے بعد اب ہر قاری و سامع بہ دل خوشی یہ اعتراف کرتا ہے کہ ہاں یقینا اس عالم کون و فساد کا نظام درحقیقت قلم ہی کی وساطت سے برقرار ہے۔