لاء کمیشن کا اجلاس

   

دنیا کے دل پہ اسکا کچھ بھی اثر نہ ہوگا
لفظوں میں تیرے واعظ تھوڑا سا دم نہیں ہے
لاء کمیشن کا اجلاس
ملک میں لوک سبھا اور اسمبلیوں کے انتخابات کو ایک ساتھ منعقد کروانے کے لئے مودی حکومت کی جانب سے دباؤ کی پالیسی پر عمل کیا جارہا ہے تو اس دباؤ کو دیگر اپوزیشن پارٹیاں قبول کرنے تیار نظر نہیں آتیں۔ قیاس آرائیاں تو ہورہی ہیں کہ مودی حکومت نے لوک سبھا اور ریاستی اسمبلیوں کے انتخابات بیک وقت کروانے کیلئے کوشاں ہے۔ اب یہ مسئلہ اپوزیشن اور حکمراں پارٹی بی جے پی کے درمیان اگر اَنا کا مسئلہ بن جائے تو انتخابات کو بیک وقت منعقد کروایا جانا ممکن نہیں ہوگا۔ سوال یہ پیدا ہورہا ہے کہ اگر مودی حکومت اس ملک کو دستوری اوروفاقی تقاضوں کو بالائے طاق رکھ کر آگے بڑھنے کی کوشش کیوں کررہی ہے۔ کانگریس نے بحیثیت بڑی اپوزیشن پارٹی اس بارے میں اپنی رائے واضح نہیں کی ہے وہ دیگر اپوزیشن پارٹیوں سے رجوع ہوکر اس مسئلہ پر غور کرے گی۔ اب ان اپوزیشن پارٹیوں کی ذمہ داری بڑھ جائے گی کہ وہ مرکزی حکومت پر دباؤ ڈالتے ہوئے اس معاملہ میں یکطرفہ اور عجلت میں کوئی فیصلہ نہ کرنے کے لئے زور دیں۔ لاء کمیشن نے ملک کی تمام سیاسی پارٹیوں کے نام مکتوبات روانہ کرتے ہوئے ان کی رائے طلب کی ہے اور اس خصوص میں غور و خوض کے لئے 8 اور 9جولائی کو ایک اجلاس طلب کیا ہے۔ اجلاس میں ان اُمور کا جائزہ لیا جائے گا کہ ملک بھر میں ـآیا لوک سبھا اور ریاستی اسمبلیوں کے انتخابات ایک ساتھ کروائے جائیں۔ اس اجلاس کو خصوصیت حاصل ہے مگر اجلاس میں شریک ہونے والی سیاسی پارٹیوں کی رائے اگر مختلف ہو تو مرکزی حکمراں پارٹی ان کی رائے کا احترام کرنے کے لئے پابند عہد ہوگی۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے ملک میں انتخابی اخراجات پر قابو پانے کی تجویز کے حصہ کے طور پر اگر بیک وقت رائے دہی کروانے کا منصوبہ تیار کیا ہے تو اس تعلق سے تمام سیاسی پارٹیوں کو اعتماد میں لینا ضروری ہوگا۔ بظاہر اس طرح کے انتخابات کو مناسب تصور نہیں کیا جاتا کیونکہ ریاستی اسمبلیوں کی میعاد اور مدت مختلف ہوتی ہے۔ اگر کسی ریاستی اسمبلی کی حکومت اپنی میعاد پوری نہ کرسکے تو اس کو لوک سبھا انتخابات تک تعطل کی حالت میں رکھنا پڑے گا اس سے ریاستی نظم و نسق پر اثر پڑے گا۔ الیکشن کمیشن اور لاء کمیشن کو مل کر اس مسئلہ کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے اور موجودہ مودی حکومت کی کوشش کے پس پردہ مقاصد کا بھی جائزہ لینا ہوگا۔ ملک میں مختلف علاقوں میں اسمبلی انتخابات یا ضمنی انتخابات ہوتے آرہے ہیں۔ اس پر آنے والے انتخابی مصارف بھی ایک اہم نکتہ ہے۔ ان مصارف پر قابو پانے اور سرکاری خزانہ پر پڑنے والے بوجھ کو کم کرنے کا ارادہ قابل غور ہے مگر یہ عملی طور پر قطعی ممکن نظر نہیں آتا۔ بعض ریاستوں میں اسمبلی انتخابات کو پیشگی طور پر کروایا جانا بھی مشکل ہے کوئی بھی ریاستی حکمراں پارٹی جو چند ہفتوں قبل ہی منتخب ہوکر حکومت تشکیل دی ہے وہ دوبارہ اسمبلی تحلیل کرکے لوک سبھا انتخابات کے ساتھ اسمبلی انتخابات کروانے کے لئے راضی نہیں ہوگی۔ ایسے میں ریاست اور مرکز کے درمیان ٹکراؤ کی نوبت آئے گی اور ایک دستوری و قانونی مسئلہ پیدا ہوگا جو آگے جاکر مرکز کیلئے پیچیدگیوں کا باعث بنے گا۔ وفاقی اور دستوری تقاضے کچھ اور ہیں اور اپنے مقصدکو روبہ عمل لانے کی کوشش ایک دوسرا مسئلہ ہے ۔ مرکز کی حکمراں پارٹی بی جے پی اپنے مقصد کو دستور اور وفاقی تقاضوں سے بالاتر رکھنے کی کوشش کرے گی تو آگے چل کر ایک دستوری و وفاقی بحران پیدا ہوگا۔ سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ بالفرض ریاستی اسمبلیوں اور لوک سبھا انتخابات کو بیک وقت کروایا جائے اور درمیان میں ہی کسی ریاستی اسمبلی میںبرسراقتدار حکومت تنازعات کا شکار ہوجائے اورمختلف وجوہات سے اپنی اکثریت ثابت نہ کرسکے تو ایسے میںاس ریاست میںجمہوری حکمرانی کے بجائے آئندہ لوک سبھا انتخابات تک صدر راج کے تحت نظم و نسق چلانے کی نوبت آئے گی جو جمہوری روح کے مغائر عمل کہلائے گا۔ لہذا مرکزی حکومت اور اپوزیشن پارٹیوں کو اسمبلی اور لوک سبھا میں انتخابات کے بیک وقت انعقاد کے منفی اور مثبت پہلوؤں کا بغور جائزہ لینا ہوگا۔ اپوزیشن کی رائے کو بھی مرکز ی حکومت نظر انداز نہیں کرسکتی۔ اب جبکہ لاء کمیشن نے 8 اور 9 جولائی کو تمام سیاسی پارٹیوں کی رائے معلوم کرنے کے لئے اجلاس طلب کیا ہے تو اس اجلاس میں مختلف الرائے کو اہمیت دی جاتی ہے تو اس کے بہتر نتائج بھی برآمد ہوں گے۔