لاک ڈاؤن ۔ حکومت کی مطلب براری

   

عوام سب دیکھ رہے ہیں کہ حکومت لاک ڈاؤن کے بہانے کیا مسائل پیدا کررہی ہے اور اپنے حامی سرمایہ داروں کو کس طرح فائدہ پہنچا رہی ہے ، لاک ڈاؤن کے تیسرے مرحلے میں جن تجارتی اداروں کو اجازت دی گئی ہے ان میں سب سے زیادہ نفع شراب کے دوکانات کو کھولنے میں ہوا ہے ۔ حکومت نے چاہے وہ مرکز کی مودی حکومت ہو یا ریاستی حکومتیں ہر ایک کو سرمایہ داروں کے بچاؤ اور اپنی جیب بھرنے کی فکر ہے ۔ اس ملک میں بد قسمتی سے وہی ہورہا ہے جس کا خطرہ تھا یعنی حکومت کی نادانیوں سے عام انسانوں کو مشکلات اور مصائب کا شکار ہونا پڑرہا ہے ۔ تلنگانہ کی حکومت نے ریاست میں لاک ڈاؤن میں 29 مئی تک توسیع دینے کے ساتھ یہ سخت ہدایت دی کہ ریڈ زون میں کسی کو جمع ہونے کی اجازت نہیں دی جائے گی ۔ وہیں حکومت نے شراب کی دوکانوں کو کھولنے کی اجازت دی ہے ۔ اس کے بعد ریاست بھر میں شراب کے دوکانوں کے باہر لمبی قطاریں دیکھی جارہی ہیں ۔ گذشتہ 45 دن سے شراب کا کاروبار بند تھا ۔ اب اس کی کشادگی کے بعد لاک ڈاؤن اور کورونا وائرس کی وباء سے بچنے کے تمام اقدامات اور ہدایات نظر انداز ہوگئے ۔ سماجی دوری کو ختم کرتے ہوئے دیکھا گیا ۔ حکومت تمام انسانوں کو عبادتوں ، پوجا پاٹ اور دعائیہ اجتماعات سے دور رکھ رہی ہے ۔ لیکن بری عادتوں اور خرابیوں کو بڑھاوا دے رہی ہے ۔ لاک ڈاؤن کے دوران شراب کی دکانیں کھول دینے سے حکومتوں کی نیت آشکار ہوچکی ہے ۔ اسے کورونا وائرس سے عوام کو بچانے کی فکر نہیں ہے وہ تو صرف اپنی جیب بھرنے کی فکر کررہی ہے ۔ کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے لیے ایک طبقہ کو ذمہ دار قرار دینے والا میڈیا ، ایک مذہبی مرکز پر اپنا سارا زور لگا کر شور مچانے والا میڈیا اور حکومت کے نمائندے آج سماجی دوری کے اصولوں کے خلاف ہونے والے واقعات پر چپ ہیں ۔ لاک ڈاؤن اور وائرس کا خطرہ دونوں کے حوالے سے عوام کو ان کے گھروں میں بند رکھنے کی ہدایت پر عمل کرنے والی پولیس نے اب تک کئی شہریوں کی ہڈیاں توڑ دی ہیں اور کئی گاڑیوں کو ضبط کیا ہے ۔ اب شراب کی دکانوں کے باہر جمع ہجوم کے بارے میں کسی بھی سرکاری عہدیدار اور میڈیا کے لوگوں کو لاک ڈاؤن کی خلاف ورزی ہونے کا احساس نہیں ہورہا ہے ۔ حکومتوں اور نظم و نسق کی غیر سنجیدگی کا یہ عالم ہے کہ مائیگرنٹس دانے دانے کو ترس رہے ہیں اور عوام کا ایک گروپ اپنی نشہ کی عادت کے مزے لوٹ رہا ہے اور حکومت ان کا بھر پور خیال رکھ رہی ہے ۔ یقینا کورونا کی وباء نے حکومت کو من مانی فیصلے کرنے کا موقع دیا ہے اور حکومت کی بہت ساری کمزوریوں پر پردہ بھی پڑ گیا ہے ۔ ایسے میں اپوزیشن بے بس دکھائی دے رہی ہے ۔ تلنگانہ کی صورتحال یہ ہے کہ یہاں کے چیف منسٹر اور ان کے کابینی رفقاء بنیادی مسائل سے بے خبر ہو کر ہر چند دن بعد چکنے چہروں کے ساتھ اجلاس منعقد کر کے اپنی ذمہ داریوں سے زیادہ اپنے نفع پر توجہ دیتے ہیں ۔

مساجد ، منادر اور دیگر عبادت گاہیں بند کر کے کورونا وائرس سے بچاؤ کی تدابیر پر زور دینے والی حکومت شراب کی دکانوں پر بھیڑ جمع کرنے کی اجازت دے چکی ہے ۔ یہ ایک ایسا احمقانہ اقدام ہے کہ گویا حکومت لوگوں کو کورونا سے مرنے کی اجازت دی ہے ۔ ہندوستان میں ایسی ہی فاش غلطیوں نے عوام کی بڑی تعداد کو آج گھروں میں بند کردیا ہے ۔ کورونا وائرس اگر ایک انسان سے دوسرے انسان میں منتقل ہونے سے پھیل رہا ہے تو پھر حکومت نے بازاروں میں دکانات کی کشادگی کی اجازت دینے میں بھی نفع اور نقصان کا خیال کیوں رکھا ہے ۔ میوے اور غذائی اجناس کے حصول کے لیے عوام پر سخت پابندیاں ہیں اور نشہ کی چیزوں کو حاصل کرنے والے ہجوم کی شکل میں امڈ پڑ سکتے ہیں ۔ سب کو معلوم ہے کہ باہر کی ہوا قاتل ہے تو حکومت نے عوام کو اس قاتل وباء کا شکار ہونے کے لیے الگ الگ پیمانے کیوں بنائے ہیں ۔ عوام کی سب سے بڑی کمزوری حکومت کی پالیسیوں اور فیصلوں کے خلاف آواز نہ اٹھانے کی عادت ہے ۔ حکومت کی کارروائیوں کا خمیازہ عوام کو بھگتنا نہ پڑے ۔ اس لیے عوام کو ہی احساس تحفظ کے ساتھ حکومت کے ذہنی افلاس سے بچنے کی کوشش کرنی ہوگی۔