لمحہ بھر کو تو لبھاجاتے ہیں نعرے لیکن

   

محمد مصطفی علی سروری
دسمبرکی 30؍ تاریخ تھی۔ رات کے ساڑھے گیارہ بجے کا وقت تھا۔ پورے شہر حیدرآباد میں سردی کی لہر اپنے عروج پر تھی۔ ایسے میں ایک شخص ایک چھوٹی سی لڑکی کو اپنے گود میں اٹھائے افضل گنج پولیس اسٹیشن میں داخل ہوتا ہے۔ لڑکی کی عمر بمشکل دو مہینے کی تھی اور وہ مسلسل روتی جارہی تھی۔ لڑکی کو لانے والے شخص نے پولیس کو بتلایا کہ وہ جب عثمانیہ دواخانے کے پاس سے گزر رہا تھا تو ایک برقعہ پوش خاتون نے اس کو بچی سنبھالنے کی درخواست کی اور بتلایا کہ ابھی وہ پانی پی کر آئے گی لیکن وہ برقعہ پوش خاتون واپس نہیں آئی۔ اس لڑکی کا رونا ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا۔ پولیس اسٹیشن کا عملہ بھی پریشان تھا کہ آخر اس لڑکی کا کیا کریں۔ جس تیزی کے ساتھ یہ کمزور سی ننھی سی لڑکی رو رہی تھی اس کی آوازیں سن کر سب ہی لوگ پریشان ہو رہے تھے۔ افضل گنج پولیس اسٹیشن سے ہی وابستہ کانسٹبل ایم رویندر نے جب چھوٹی لڑکی کو روتے ہوا دیکھا تو جلد ہی جان گئے کہ یہ چھوٹی لڑکی کس لیے رو رہی ہے۔ کیونکہ خود رویندر کی بیوی نے بھی حال ہی میں ایک بچے کو جنم دیا تھا۔ رویندر نے فوری اپنے گھر اپنی بیوی پرینکا کو فون کیا اور کہا کہ فوری پولیس اسٹیشن آجائو یہاں پر ایک چھوٹی لڑکی ہے، لیکن اس کی ماں کا کوئی پتہ نہیں چل رہا اور وہ بھوک کے مارے مسلسل روتی جارہی ہے۔ آدھی رات کے قریب سردی کے موسم میں ایک پولیس کانسٹبل رویندر کی بیوی پرینکا جو کہ خود بھی ایک پولیس کانسٹبل ہے اور اپنے بچے کی پیدائش کے بعد میٹرنٹی کی چھٹی پر گھر پر آرام کر رہی ہے، ایک ٹیکسی لے کر افضل گنج پولیس اسٹیشن پہنچ جاتی ہے اور پھر اجنبی برقعہ پوش خاتون کی بچی کو گود میں لے کر ایسے ہی دودھ پلانے لگتی ہے جیسے کہ وہ اس کی بچی ہے۔ پولیس اسٹیشن کا عملہ اس وقت چین کی سانس لیتا ہے جب مسلسل روتی ہوئی بچی پرینکا کی گود میں جاتے ہی خاموش ہوجاتی ہے۔ پرینکا اس اجنبی چھوٹی سی بچی کو اس وقت تک اپنے گود میں رکھتی ہے جب تک اس کو چین کی نیند نہیں آجاتی۔ جب چھوٹی لڑکی سوجاتی ہے تو پرینکا اپنے گھر واپس چلی جاتی ہے اور پولیس کا عملہ اس معصوم بچی کو قریب میں واقع گورنمنٹ میٹرنٹی ہاسپٹل میں منتقل کردیتا ہے۔ قارئین حیدرآباد سٹی پولیس کی جانب سے جاری کردہ پریس نوٹ کے مطابق اس معصوم سی بچی کی حقیقی ماں کا اگلے دن پولیس کو پتہ چل جاتا ہے اور بعد تحقیقات کے لڑکی کو اس کی اصلی ماں کے حوالے کردیا جاتا ہے۔ اس برقعہ پوش خاتون کا نام شبانہ بیگم تھا اور اس کے شوہر کا نام فیروز خان۔
قارئین 31؍ دسمبر کو جاری کردہ حیدرآباد سٹی پولیس کے پریس نوٹ میں مسلم برقعہ پوش خاتون شبانہ بیگم کے بارے میں اور اس کے شوہر کے متعلق اور بھی باتیں بتلائی گئی تھیں جن کا یہاں تذکرہ مناسب نہیں ہوگا اور ہمارے آج کے کالم کے موضوع سے بھی کوئی راست تعلق نہیں۔ آج کے اس کالم میں شہر حیدرآباد کی اس ملی جلی گنگا جمنی تہذیب کے بارے میں لکھنا مقصود ہے، جس میں ایک اجنبی مسلم معصوم بچی کی زندگی کو بچانے کے لیے ایک ہندو خاتون آدھی رات کو گھر سے باہر نکلتی ہے۔ حالانکہ کہنے کو تو پرینکا کے پاس ہزار بہانے تھے اور خود اس کے شوہر رویندر کو بھی کسی نے زبردستی نہیں کی تھی کہ آدھی رات کو اپنی بیوی کو بلائو۔ 11 ڈگری سنٹی گریڈ کے درجہ حرارت میں جب آدھے سے زیادہ شہر گرم کپڑوں میں ملبوس اپنے اپنے گھروں میں آرام سے سورہا تھا خود زچہ ہونے کے باوجود اپنے بچے کو گھر پر چھوڑ کر پرینکا ٹیکسی کے ذریعہ پولیس اسٹیشن پہنچتی ہے اور یہ جاننے کے باوجود کہ چھوٹی بچی کو پولیس اسٹیشن تک پہنچانے والے مسلمان ہیں اور جو حلیہ اس بچی کی ماں کا بتلایا جارہا ہے وہ بھی مسلمان خاتون کا ہے۔ پرینکا بلا جھجک ایک اجنبی مسلم خاتون کی معصوم بچی کو جو شدید بھوک سے دوچار تھی اپنا دودھ پلاکر اس کی جان بچاتی ہے اور سارے عالم کو یہ سبق دیتی ہے کہ شہر حیدرآباد میں انسانیت کا مذہب سب سے بڑا ہے اور ایک مسلم کی جان بچانے کے لیے ہندو پس و پیش نہیں کرے گا کیونکہ جہاں ہندو مسلم مل جل کر رہتے ہیں وہی شہر حیدرآباد گنگا جمنی تہذیب کا علمبردار ہے۔
قارئین آپ حضرات سونچ رہے ہوں گے، ہزاروں میں ایک واقعہ کی بنیاد پر کیا اس طرح سوچنا صحیح ہے تو میں آپ لوگوں کو بتلائوں کہ میرے پاس دو ایک نہیں ایسی بے شمار مثالیں ہیں اور یہ مثالیں کتابوں کی نہیں بلکہ آپ کی اور ہماری عملی زندگیوں سے جڑی ہوئی ہیں۔
ڈاکٹر سی وی نرسمہا ریڈی، انفارمیشن اینڈ پبلک ریلیشن ڈپارٹمنٹ کے ریٹائرڈ ڈائرکٹر ہیں۔ انہوں نے محمد کیف نام کے نویں جماعت کے ایک اسٹوڈنٹ کو اپنی جانب سے 10 ہزار روپئے کا عطیہ دیا۔ محمد کیف رچمنڈ ہائی اسکول، کملاپور کالونی میں پڑھتا ہے اور ساتھ ہی ہر روز صبح میں لوگوں کو ان کے گھروں تک اخبار پہنچانے کا کام بھی کرتا ہے۔ اپنے گھر والوں کی کمزور معاشی حالت کے مد نظر محمد کیف روزانہ صبح میں لوگوں کو دی ہندو اخبار گھروں تک پہنچاکر اپنی مدد آپ کرتا ہے۔ تعلیم کے تئیں محمد کیف کی دلچسپی کو مدنظر رکھ کر ڈاکٹر سی وی نرسمہا ریڈی نے نہ صرف محمد کیف کو دس ہزار روپئے کا عطیہ دیا بلکہ دسویں جماعت تک اس کی مکمل تعلیمی کفالت کرنے کا بھی اعلان کیا۔ ڈاکٹر سی وی نرسمہا ریڈی تعلقات عامہ (Public Relations) کے مضمون کو فروغ دینے کے لیے بھی شہرت رکھتے ہیں۔ قارئین لوگ بہت ساری مثالیں دے کر کہتے ہیں کہ آج کی نسل میں خون سفید ہوگیا ہے، بھائی ہی بھائی کے کام نہیں آرہا ہے، لیکن شہر حیدرآباد میں ہندو مسلم بھائی چارگی کا ماحول ہے۔ ایک ہندو اور وہ بھی ریڈی نام کا شخص اخبار ڈالنے والے ایک مسلم لڑکے کے تعلیمی اخراجات برداشت کرنے کا اعلان کرتا ہے اور لڑکے کی کفالت کرتا ہے تویہ گنگا جمنی تہذیب نہیں تو اور کیا ہے۔
قارئین آپ میں سے بہت سارے لوگوں نے اپنے اور دوسرے بے شمار لوگوں کے گھروں پر ’’ہذا من فضل ربی‘‘ کی تختی لگی دیکھی ہوگی لیکن شہر حیدرآباد میں ایک گھر موہن گروسوامی کا بھی ہے جن کے گھر کے باب الداخلہ پر لکڑی سے بنی ایک تختی ہے جس پر سنہری رنگ میں ’’ہذا من فضل ربی‘‘ لکھا ہے۔
اب موہن گرو سوامی کون ہیں تو اس سوال کے جواب میں بتلادوں کو وہ ہندوستان کے ایک مشہور ماہر معاشیات ہیں۔ انہوں نے سابق میں ہندوستان کے مرکزی وزیر معاشی امور کے لیے اڈوائزر کے فرائض انجام دیئے ہیں۔ دنیا کی مشہور ہارورڈ یونیورسٹی کے فارغ التحصیل ہیں۔ فی الحال سکندرآباد میں رہتے ہیں اور اپنے گھر پر لگی عربی رسم الخط کی تحریر کو پسند کرتے ہیں اور اس کافخریہ اظہار بھی کرتے ہیں۔ اس مختصر سے کالم میں موہن گروسوامی کا تعارف ممکن نہیں ہے۔ کوئی بھی Google پر صرف ان کا نام ہی ٹائپ کر کے دیکھے کہ یہ کتنا بڑا شخص ہے۔
آیا گنگا جمنی تہذیب ہندو مسلم بھائی چارگی صرف حیدرآباد میں ہی ہے، قارئین ایسا نہیں ہے۔ بین مذہبی بھائی چارگی دراصل ہندوستان کی روح ہے اور یہاں کے ہر ذرے، ہر علاقے، ہر ریاست میں دیکھنے کو ملے گی۔ مگر مسئلہ یہ ہے کہ میڈیا منفی باتوں کو تو کوریج دیتا ہے اور مثبت بھائی چارگی، بین مذہبی تعاون کو یا تو نظر انداز کردیتا ہے یا نہیں کے برابر جگہ دیتا ہے۔
18؍ دسمبر 2018 کی رات سے کولکتہ شہر میں 20 سالہ سجل کار کا ایکسڈنٹ ہوجاتا ہے۔ سجل کار کو دواخانہ لے جایا جاتا ہے جہاں پر ڈاکٹرس اس کو Brain dead قرار دیتے ہیں۔ اس لڑکے کے خاندان والے سجل کار کے جسمانی اعضا ضرورت مندوں کو عطیہ دینے کے لیے رضامندی ظاہر کرتے ہیں اور اس نوجوان کے دونوں گردے، لیور (جگر)، دل، skin اور آنکھوں کا عطیہ ضرورتمند مریضوں کے لیے نکال لیے جاتے ہیں اور اس ہندو نوجوان کا دل کولکتہ میڈیکل کالج کے دواخانے میں زیر علاج مرشد آباد کے 40 سالہ مسلم مریض حبیب الرحمن کو پیوند کاری کے ذریعہ لگایا جاتا ہے۔ (بحوالہ ٹائمز نائو نیوز ڈاٹ کام۔ 21؍ دسمبر 2018)
ایک اور واقعہ جموں و کشمیر کے ضلع پلوامہ سے رپورٹ کیا گیا ہے۔ تفصیلات کے مطابق 31؍ دسمبر کی صبح گیارہ بجے اونتی پورہ کے علاقے میں ایک مسلم خاتون ٹرک کی ٹکر کے سبب شدید زخمی ہوکر سڑک پر گر گئی۔ ان کے پیروں پر لگے زخم سے خون بہہ رہا تھا۔ وہ مدد کے لیے لوگوں کو آواز دے رہی تھی۔ تب وہاں سے گزرنے والے منجیت سنگھ نام کے ایک نوجوان سردار جی نے آگے بڑھ کر اس مسلم خاتون کی مدد کی اور قارئین میں آپ کو بتلادوں کہ اس نوجوان سردار نے خاتون کے پیروں سے بہنے والے خون کو روکنے کے لیے اپنے سر کی پگڑی کھول دی اور خاتون کے پیر پر خوب کس کر باندھ دپا تاکہ خون کا بہائو رک جائے۔ بعد میں اس خاتون کو دواخانہ لے جایا گیا، جہاں پر اس مسلم خاتون کا باضابطہ علاج کیا گیا۔ عینی شاہدین کے حوالے سے KBC نیوز کشمیر کے نمائندے عشرت جبین نے بتلایا کہ ایک سردار جی کی بروقت مدد سے ایک مسلم خاتون کی جان بچ گئی۔ (بحوالہ ناظم علی منہاس ۔ جموں)
قارئین ہمارے ملک ہندوستان کی مٹی کا خمیر ہی بھائی چارگی اور رواداری سے بنا ہے اور اس خمیر سے گنگا جمنی تہذیب پروان چڑھی یہ۔ یہ سبق سبھی مسلمانوں کو اور خاص کر ان نوجوانوں کو پڑھانا ضروری ہوگیا ہے جو مسلم محلوں، مسلم اسکولوں، مسلم کالجوں میں پلنے اور بڑے ہونے کے بعد ہندوستان کے اصل گنگا جمنی کردار کو بھلاکر زندگی کے ہر مسئلے کو مذہب کی عینک سے دیکھنے لگتے ہیں۔ ایسے میں سیاست دانوں کے لیے بھی مذہبی نفرت کو بڑھاوا دے کر اپنے سیاسی مفادات کی روٹیاں سینکنا آسان ہوگیا ہے۔
قارئین یہ سچ ہے کہ ہمارا ملک ہندوستان کسی کی جاگیر نہیں ہے، یہ ہم سب کا ہے۔ اس کو انگریزوں سے آزادی دلانے سے لے کر ترقی کے سفر پر گامزن کرنے تک یہاں کی ہر قوم اور اور ہر مذہب اور ہر علاقے کے رہنے والوں کا گرانقدر رول ہے۔نوجوانوں کو ہی نہیں بلا کسی امتیاز کے ہر ہندوستانی کو ہندوستانی تاریخ سے صحیح واقفیت حاصل کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ہم اپنی وہ ذمہ داری محسوس کریں جو بحیثیت شہری ہم پر عائد ہوتی ہے اور ان فرائض کو بھی پورا کریں جن کے ذریعہ سے ہم اپنی ملی جلی تہذیب اور تاریخ کا تحفظ کرسکیں۔
قارئین یہ بھی سچ ہے کہ آج کے اس کالم میں میں نے رواداری کی انہیں مثالوں کو پیش کیا جو کہ دیگر برادران وطن نے مسلمانوں کے ساتھ روا رکھی۔ یقینا ایسی بھی بے شمار مثالیں ہیں جس میں مسلمانوں نے بھی اسی طرح کی گرمجوشانہ مذہبی رواداری کا مظاہرہ کیا ہے۔ میری دانست میں اس طرح کی مثالوں سے ہم سب بخوبی واقف ہیں۔ آخر میں اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہم ہندوستانی مسلمانوں کو صراط المستقیم پر چلنے والا بنا اور نیا سال ہم سبھی کے لیے اور ہمارے وطنِ عزیز کے لیے خوش گوار بنا۔ آمین یا رب العالمین۔
(کالم نگار مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی، حیدرآباد کے شعبۂ ترسیل عامہ و صحافت میں اسوسی ایٹ پروفیسر ہیں)
(sarwari829@yahoo.com)