لواطت شرعًا حرام اور قابلِ تعزیر ہے

   

سوال : کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ زید کا نکاح ہندہ سے چند ماہ قبل ہوا۔ زید ہندہ سے مجامعت نہیں کرتا، بلکہ مسلسل بدفعلی (لواطت) ہی کرتا ہے۔ ہندہ، بار بار اس بدفعلی سے روکتی رہی، مگر زید باز نہ آیا۔ اب ہندہ اپنے سازوسامان کے ساتھ اپنے میکے چلی گئی۔ اور یہ کہہ رہی ہے کہ اب زید کے گھر نہیں جاؤنگی۔
ایسی صورت میں شرعًا کیا حکم ہے ؟ بینوا تؤجروا
جواب : اﷲتعالیٰ کا فرمان ہے ’’ اِنَّا كُلَّ شَىْءٍ خَلَقْنَاهُ بِقَدَرٍ‘‘ (سورۃ القمر ۵۴ آیۃ ۴۹) کہ ہم نے ہر چیز کو ایک مقررہ اندازے کے مطابق پیدا کیا۔ جیسے آنکھ دیکھنے کیلئے، کان سننے کیلئے، ناک سونگھنے کیلئے، منہ کھانے، پینے اور کلام کیلئے۔ اسی طرح ’’جماع‘‘ کیلئے بھی مخصوص اعضاء پیدا کئے، جن سے مجامعت کی جائے تو ہر دو کی تسکین شہوت ہوکر وہ عمل ثمر آور ہوگا۔ ان اعضاء کو غیرطریقہ کار پر استعمال کرنا خلاف فطرت اخلاق سوز ظالمانہ عمل ہوگا۔
فقہائے اسلام نے لواطت، مخرج اجابت میں قضائے شہوت کرنا حرام قرار دیا ہے۔ اور اگر شوہر اپنی بیوی کے ساتھ لواطت کرے تو قابل تعزیر عمل ہوگا اور اس پر تعزیرات لاگو کئے جائیں گے۔ اگر اس کی عادت یہی ہے اور باز آنے کی امید نہ ہو تو حاکمِ وقت کو اس بات کا اختیار ہوگا کہ وہ اس شخص کو مارے اور قیدکروائے یا قتل کروائے۔ ردالمحتار جلد ۳ صفحہ ۱۷۰ میں کتاب الحدود مطلب فی وطء الدبر کے تحت ہے : (أو) بوط ء (دبر) وقال ان فعل فی الأجانب حد وان فی عبدہ أو امتہ أو زوجتہ فلاحد اجماعا بل یعزر قال فی الدر بنحو الاحراق بالنار وھدم الجدار و التنکیس من محل مرتفع۔ اور ردالمحتار میں ہے : (قولہ أو بوط ء دبر) اطلقہ فشمل دبرا الصبی والزوجۃ والأمۃ فانہ لا حد علیہ مطلقا عند الامام منع و یعزر ہدایۃ اور اسی صفحہ میں مطلب فی حکم اللواطۃ کے تحت ہے : (قولہ بنحو الاحراق الخ) متعلق بقولہ یعزر عبارۃ الدرر فعند ابی حنیفۃ یعزر بأمثال ھذہ الأمور واعتراضہ فی النھر بان الذی ذکرہ غیرہ تقیید قتلہ بما اذا اعتاد ذلک قال فی الزیادات والرأی الی الامام فیما اذا اعتاد ذلک ان شاء قتلہ وان شاء ضربہ وحبسہ ۔ لواطت جیسے بد اخلاقی عمل پر اﷲتعالیٰ نے قوم لوط علیہ السلام کو عذاب دے کر ہلاک کردیا۔
پس صورتِ مسئول عنہا میں مذکور شوہر کے اپنی بدکرداری سے باز آنے کی امید نہ ہو تو بیوی حرام کاری سے بچنے کی خاطر بذریعہ خلع علحدگی اختیار کرسکتی ہے۔ فقط واﷲ أعلم