لوک سبھا انتخابات:’ مسلم سیاسی اجلاس‘ نے پیش کیا فہرست مطالبات

,

   

 

 

نئی دہلی: آئندہ لوک سبھا انتخابات کے پیش نظر، پاپولر فرنٹ آف انڈیا کے زیر اہتمام ۶؍مارچ ۲۰۱۹ کو نئی دہلی میں مسلم سیاسی اجلاس کا انعقاد عمل میں آیا۔ اجلاس میں مختلف ریاستوں اور مختلف سیاسی و سماجی حلقوں سے وابستہ دانشوران، علماء و ملّی قائدین نے شرکت کی اور موجودہ سیاسی منظرنامے کا جائزہ لینے اور ملک کو درپیش مسائل پر مباحثہ کرنے کے بعد اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کی پریشانیوں کو روشنی میں لانے کا عزم کیا۔ اجلاس کے اختتام پر ایک فہرست مطالبات بھی پاس کیا گیا جو مسلم سماج کی ترقی، نمائندگی، تعلیم، ثقافت، تحفظ اور دیگر امور سے متعلق مسائل پر مشتمل ہے۔

اجلاس نے اقلیتوں کے حقوق کا دم بھرنے والی تمام سیاسی پارٹیوں سے ان مطالبات پر مثبت ردعمل ظاہر کرنے اور انہیں اپنے انتخابی منشور کا حصہ بنانے کا مطالبہ کیا۔ ساتھ ہی عوام خصوصاً اقلیتی طبقے کے ووٹروں سے یہ اپیل کی گئی کہ وہ ۲۰۱۹ کے لوک سبھا انتخابات میں اپنے ووٹ کا استعمال کرتے وقت، اس بات کا جائزہ لیں کہ اس فہرست مطالبات کے تئیں انتخابی میدان میں اترنے والی پارٹیوں اور امیدواروں کا کیا رد عمل ہے۔ اس اجلاس کے مقصد کو کامیاب بنانے کے لیے فہرست میں شامل مطالبات کو سیاسی پارٹیوں کے ایجنڈے میں داخل کرنے اور ووٹروں کو اپنے حقوق کے تئیں بیدار کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ اس سلسلے میں تقریباً سو ایسے انتخابی حلقوں میں جہاں اقلیتوں کے ووٹ فیصلہ کن حیثیت رکھتے ہیں،پمفلیٹ کی تقسیم، عمومی اجتماعات و دیگر پروگراموں کے ذریعہ ایک زبردست مہم چلانے کی تیاری ہے اور اس کے لیے منصوبہ بندی کی جارہی ہے۔

اجلاس میں پاس کردہ چارٹر میں اس جانب اشارہ کیا گیا کہ آر ایس ایس کی ماتحت بی جے پی قیادت والی موجودہ این ڈی اے حکومت میں مذہبی اقلیتوں کو بہت زیادہ نشانہ بنایا گیا ہے اور ان کے ساتھ امتیازی سلوک روا رکھا گیا ہے۔ سب کے ساتھ انصاف کی سیاست کے بجائے، نفرت کی سیاست موجودہ حکومت کی پالیسی رہی ہے۔ چنانچہ آنے والے انتخابات میں اس حکومت کو تبدیل کرنا مذہبی اقلیتوں کے حق میں ہوگا۔ لیکن بیک وقت یہ بات بھی سامنے رہنی چاہئے کہ اقلیتوں کے وجود اور ترقی کے مسائل کو غیر بی جے پی پارٹیوں نے بھی یکسر نظرانداز کئے رکھا ہے، جوکہ روایتی طور پر مسلمانوں کے ووٹ پر منحصر رہی ہیں۔ لہٰذا صرف حکمراں جماعت یا اتحاد کو ہٹاکر اس کی جگہ دوسروں کو بٹھانا اور حکومتی پالیسیوں میں کوئی تبدیلی نہ کرنا صحیح متبادل نہیں ہے۔ بی جے پی کا بہتر متبادل بننے کے لیے غیر بی جے پی پارٹیوں کو اپنی اب تک کی پالیسی کو عوامی پالیسی سے بدلنا ہوگا اور مختلف مسائل کے تئیں سیکولر نظریہ اپنانا ہوگا۔

چارٹر میں بابری مسجد، نمائندگی، عوام مخالف قوانین وغیرہ جیسے متعدد ایسے مسائل اٹھائے گئے ہیں، جن میں اپوزیشن جماعتیں یا تو بی جے پی کی فرقہ پرستی اور ذات پرستی کے نظریے کی حمایت کرتی نظر آتی ہیں یا وہ اس پر قصداً خاموشی برتتی ہیں۔ اس چارٹر میں عوام خاص طور سے مسلم اقلیت کے سلگتے مسائل پر۲۵؍ عناوین کے تحت کل ۷۳؍مطالبات کو شامل کیا گیا ہے، جوبنیادی طور پر سچر کمیٹی اور مشرا کمیشن کی سفارشات، اقلیتی فلاحی اسکیموں، ہنرمند مزدور اور کاریگر، ظالمانہ قوانین، این آر سی اور شہریت ترمیمی اقدامات، فرضی انکاؤنٹر، زیرِ سماعت قیدی، متناسب نمائندگی، مذہبی اقلیتوں کے رزرویشن، اقلیتی اداروں، مسلم پرسنل لا، عبادتگاہوں، وقف، خواتین کی اختیارکاری وغیرہ پر مشتمل ہیں۔

پاپولر فرنٹ آف انڈیا کے چیئرمین ای ابوبکر نے اجلاس کی صدارت کی۔ انہوں نے کہا کہ انتخابات میں مسلمانوں کا کردار بس یہ رہ گیا ہے کہ ہر آنے والے انتخاب میں انہیں ایک پارٹی کو اقتدار تک پہنچانا اور دوسری کو اقتدار سے ہٹانا ہے۔ لیکن کوئی بھی پارٹی ان کے مسائل کے حل سے کبھی کوئی سروکار نہیں رکھتی۔ اب سیکولر پارٹیوں کے بکھرے گھرانے کے وارثین کی جانب سے بی جے پی کو شکست دینے کی ذمہ داری بھی صرف اور صرف مسلمانوں کے کندھوں پر ڈال دی گئی ہے۔ ای ابوبکر نے یہ تاکید کی کہ اب وقت ہے کہ مظلوم طبقات مختلف پارٹیوں کے ووٹر بنے رہنے کے بجائے، اقتدار میں اپنی مناسب حصہ داری کو یقینی بنانے کی فکر کریں۔ اجلاس کے دوران ای ایم عبدالرحمن نے ماڈریٹر کے فرائض انجام دئے۔ ڈاکٹر تسلیم رحمانی نے فہرست مطالبات کا مسودہ پیش کیا۔ جبکہ ایم محمد علی جناح نے حاضرین کا خیرمقدم کیا اور عبدالواحد سیٹھ نے کلمات تشکر پیش کیے۔