لوک سبھا انتخابات میں حصہ لینے پر قائدین سے مشاورت

   

ایل رمنا نے ضلعی قائدین کا اجلاس طلب کیا، کئی حلقوں میں تلگو دیشم کا موقف مستحکم
حیدرآباد ۔ 19 ۔ مارچ (سیاست نیوز) تلنگانہ تلگو دیشم پارٹی لوک سبھا انتخابات میں حصہ لینے کے مسئلہ پر دیگر جماعتوں سے مشاورت کر رہی ہے ۔ پارٹی کے ضلعی قائدین سے مشاورت کے بعد نشستوں کے بارے میں اعلان کیا جائے گا ۔ پارٹی کے پولیٹ بیورو رکن آر چندر شیکھر ریڈی نے میڈیا کے نمائندوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ صدر تلنگانہ تلگو دیشم ایل رمنا نے ضلعی صدور اور اہم قائدین کے ساتھ اجلاس منعقد کرتے ہوئے پارٹی کے امکانات کا جائزہ لیا۔ انہوں نے کہا کہ کئی انتخابی حلقوں میں تلگو دیشم کا موقف ابھی بھی مستحکم ہے اور کیڈر کی جانب سے انتخابات میں حصہ لینے کا مطالبہ کیا جارہا ہے ۔ چندر شیکھر ریڈی نے کہا کہ اسمبلی انتخابات میں حلیف جماعتوں سے مشاورت کے بعد قطعی فیصلہ کیا جائے گا۔ انہوں نے چیف منسٹر تلنگانہ کے سی آر کی جانب سے آندھراپردیش کی سیاست میں مداخلت کی کوششوں پر تنقید کی اور کہا کہ کے سی آر اور کے ٹی آر آندھراپردیش میں جگن کی کامیابی کے حق میں بیانات دے رہے ہیں۔ انہوں نے سوال کیا کہ ٹی آر ایس قائدین کو آخر آندھراپردیش سے نفرت کیوں ہے ؟ 2009 ء میں ٹی آر ایس نے تلگو دیشم کے ساتھ مفاہمت کرتے ہوئے انتخابات میں حصہ لیا تھا ۔ 2014 ء انتخابات کی رائے شماری سے قبل کے سی آر نے اعلان کیا تھا کہ تلنگانہ میں وہ اور آندھراپردیش میں جگن برسر اقتدار آئیں گے ۔

انہوں نے کہا کہ چندرا بابو نائیڈو دونوں تلگو ریاستوں کی یکساں ترقی کے حق میں ہیں اور ایک سے زائد مرتبہ انہوں نے اس کا اظہار بھی کیا۔ حالیہ اسمبلی انتخابات میں کے سی آر نے چندرا بابو نائیڈو اور تلگو دیشم پارٹی کے خلاف جو بیانات دیئے ہیں، وہ عوام کے ذہنوں میں تازہ ہیں۔ چندر شیکھر ریڈی نے یاد دلایا کہ سابق میں کے سی آر نے کہا تھا کہ مجلس صرف حیدرآباد تک محدود ہے اور تلنگانہ میں اس کا کوئی اثر نہیں ہے ۔ انہوں نے پرانے شہر جاکر مجلس کی اصلیت بے نقاب کرنے کا اعلان کیا تھا لیکن آج یہی دونوں پارٹیاں فیڈرل فرنٹ کی بات کر رہی ہیں۔ انہوں نے الزام عائد کیا کہ کے سی آر ایک طرف بی جے پی اور دوسری طرف مجلس کو ساتھ رکھتے ہوئے آندھراپردیش میں جگن موہن ریڈی کی تائید کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کے سی آر نے سابق میں کہا تھا کہ فیڈرل فرنٹ کے قیام سے قومی سیاست میں زلزلہ آئے گا لیکن آج وہ قومی پارٹی کے قیام کا اعلان کر رہے ہیں۔ کوئی بھی سیاسی پارٹی قائم کرسکتا ہے لیکن قومی پارٹی کے قیام کے لئے کچھ اصول اور ضوابط درکار ہے ۔ تین ریاستوں میں لوک سبھا کی کم از کم 2 فیصد نشستوں پر کامیابی یا 4 ریاستوں میں لوک سبھا یا اسمبلی کی چناؤ میں جملہ استعمال کردہ ووٹ کا 6 فیصد اگر حاصل ہو تو قومی پارٹی کا درجہ حاصل ہوتا ہے ۔ ٹی آر ایس صرف تلنگانہ تک محدود ہے اور 16 نشستوں پر مقابلہ کرتے ہوئے قومی جماعت کا دعویٰ کر رہی ہے۔ انہوں نے 16 ارکان پارلیمنٹ کے ساتھ قومی سیاست میں اہم رول ادا کرنے کے دعوؤں کو مضحکہ خیز قرار دیا ۔ انہوں نے کہا کہ اسمبلی میں اکثریت کے باوجود کانگریس کے ارکان اسمبلی کو انحراف پر مجبور کیا جارہا ہے۔