لکھی ہے ہم نے بھی شعلوں کے درمیاں تاریخ

,

   

یکساں سیول کوڈ … مودی کا ٹرمپ کارڈ
شریعت پر عمل … تحفظ کا آسان نسخہ

رشیدالدین
کسی سڑک پر لوگ جب چلنا چھوڑدیں تو وہ ڈیڈ روڈ بن جاتی ہے اور جہاں لوگ چلنے لگیں وہ راستہ بھلے ہی نہ رہے لیکن نئی سڑک بن جاتی ہے۔ ہندوستان میں مسلمان اگر اسلام کی بقاء چاہتے ہوں تو پہلی ذمہ داری ہے کہ اسلام اور سنت نبوی کو ڈیڈ روڈ بننے نہ دیں۔ یعنی اگر ہم چلنا چھوڑدیں تو راستہ بند کرنے کیلئے کسی حکومت کی ضرورت نہیں رہے گی اور از خود راستہ بند ہوجائے گا۔ اگر مسلمانوں نے فیصلہ کرلیا کہ اپنی زندگی میں شریعت کو جاری اور نافذ کریں تو کوئی حکومت پرسنل لا ختم نہیں کرسکتی۔ یہ الفاظ مولانا قاضی مجاہدالاسلام قاسمیؒ کے ہیں جو آج یکساں سیول کوڈ کے نفاذ کی کوششوں کے درمیان مسلمانوں کی رہنمائی کی طرح ہیں۔ کئی برس پہلے تحفظ شریعت مہم کے دوران مولانا مجاہدالاسلام قاسمی نے یہ تاریخی جملے ادا کئے تھے۔ حقیقت یہی ہے کہ مسلمان اپنی زندگی کو شریعت کا پابند کرلیں تو کسی حکومت کی مجال نہیں کہ یکساں سیول کوڈ کی بات کرے۔ اسلام اور شریعت پر حملے گزشتہ 75 برسوں سے جاری ہیں اور ہمیشہ مسلمانوں نے اپنے عمل سے شریعت کا تحفظ کیا ہے۔ مسلمانوں کا رشتہ جب شریعت سے کمزور ہونے لگا تو شریعت میں تبدیلی کے منصوبے تیار ہونے لگے اور مسلمان مزاحمت کے جذبہ سے محروم رہے جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ شریعت سے دوری اور بے حسی نے یکساں سیول کوڈ کے دہانے تک پہنچا دیا۔ باطل طاقتوں کے حوصلے اس قدر بلند ہوگئے کہ کل تک عائلی قوانین پر اعتراض کرنے والے آج شریعت یعنی خدائی قانون کی جگہ انسانی قانون کو مسلمانوں پر مسلط کرنے کے درپے ہیں۔ طلاق ثلاثہ پر پابندی کے وقت اگر جرأت ایمانی کا مظاہرہ کیا جاتا تو آج نوبت یکساں سیول کوڈ تک نہ آتی۔ بابری مسجد ہم سے چھین لی گئی۔ توحید کے مرکز کو بت خانہ میں تبدیل کردیا گیا لیکن مسلمانوں کی ایمانی حرارت نہیں جاگی۔ مساجد سے ہمارا رشتہ ٹوٹ گیا اور شریعت سے وابستگی صرف رسمی بن کر رہ گئی ہے جس کے نتیجہ میں عبادتگاہوں اور شریعت اسلامی دونوں پر خطرات منڈلانے لگے ہیں۔ مساجد اور شریعت سے ہمارا رشتہ مضبوط ہوتا تو بابری مسجد بھی قائم رہتی اور پارلیمنٹ میں طلاق ثلاثہ کا قانون بنانے کی ہمت نہ ہوتی۔ ایسا نہیں ہے کہ ہر بار مسلمانوں نے عزیمت کے بجائے ہزیمت کو اختیار کیا ہو۔ راجیو گاندھی دور حکومت میں جب سپریم کورٹ میں شاہ بانو کیس میں شریعت کے خلاف فیصلہ سنایا تو مسلمانوں نے ملی اتحاد کا ایسا مثالی مظاہرہ کیا کہ سپریم کورٹ کے فیصلہ کو کالعدم کرتے ہوئے مرکزی حکومت کو دستوری ترمیم پر مجبور ہونا پڑا۔ مسلمانوں کے جذبہ ایمانی کے آگے حکومت کو جھکنا پڑا لیکن شریعت پر حملوں کے باوجود مسلمانوں کی بے حسی ایسی ہے کہ جیسے اسلام سے ان کا کوئی تعلق نہیں۔ دلچسپ بات تو یہ ہے کہ شاہ بانو فیصلہ کے وقت بھی مذہبی اور سیاسی قیادت موجود تھی اور آج بھی موجود ہے لیکن مسلمانوں کی دین سے دوری اور شریعت کے تحفظ کے جذبہ کی کمی نے باطل طاقتوں کے حوصلوں کو بلند کردیا ہے ۔ درحقیقت سیاسی اور مذہبی قیادت تو ہے لیکن سابقہ قیادتوں کی طرح اخلاص اور للہیت سے عاری ہیں۔ بے لوث اور مخلص قیادت کو دنیاوی حقیر مفادات کی پرواہ نہیں ہوتی۔ یہی وجہ ہے کہ علی میاں ، مولانا منت اللہ رحمانی ، مولانا مجاہد الاسلام قاسمی ، بنات والا اور ابراہیم سلیمان سیٹھ جیسی بے باک اور بے داغ شخصیتوں نے حکومت وقت کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیا تھا ۔ قوم اور ملت سے ہمدردی رکھنے والی دردمند قیادت کی جگہ آج مصلحت پسند اور حکومت سے خوفزدہ افراد قیادت کے منصب پر فائز ہیں۔ زبان میں اثر ختم ہوگیا جس کے نتیجہ میں قوم متحد ہونے تیار نہیں ۔ مذہبی اور سیاسی قیادتوں پر قوم کا اعتماد متزلزل ہوچکا ہے۔ شریعت سے اٹوٹ وابستگی نے شاہ بانو کیس میں کامیابی سے ہمکنار کیا۔ ٹھیک اسی طرح تہذیبی روایات سے اٹوٹ وابستگی کا مظاہرہ ٹاملناڈو کے عوام نے کیا تھا۔ جانوروں کی دوڑ جسے جلی کٹو کی رسم کہا جاتا ہے سپریم کورٹ نے پابندی عائد کردی تھی۔ سپریم کورٹ کے فیصلہ کے خلاف ٹاملناڈو کا ہر شہری سڑک پر آگیا ۔ کیا امیر کیا غریب ، سیاستداں ، فلمی اسٹار ، ادیب ، شاعر ، فنکار ، مرد ، خواتین ، نوجوان، طلبہ الغرض ہر شخص خاموش سڑک پر بیٹھ گیا ۔ حالانکہ یہ کوئی مذہبی رسم نہیں ہے بلکہ قدیم تہذیبی روایت کا حصہ ہے جس کے تحفظ کے لئے سارا ٹاملناڈو سڑکوں پر آگیا تھا ۔ سپریم کورٹ کو فیصلہ پر نظرثانی کرنی پڑی اور مرکزی حکومت نے جلی کٹو کے حق میں قانون سازی کی۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ ایک تہذیبی روایت کی برقراری کیلئے لوگ سڑکوں پر نکل آئے لیکن شریعت کے لئے مسلمان جمہوری احتجاج کیلئے بھی تیار نہیں۔ دونوں مثالوں میں وابستگی کا اہم رول ہے۔ ٹاملناڈو کے عوام کی اٹوٹ وابستگی ایک روایتی رسم سے ہے لیکن مسلمان اسلام سے صرف رسمی انداز میں وابستگی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ کاش ملت میں بے لوث ، مخلص ، ایماندار اور بے باک قیادت کا احیاء ہو تاکہ مسلمانوں میں شریعت کے تحفظ کا جذبہ پیدا کیا جاسکے۔ قرآن مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ اللہ تعالیٰ اس وقت تک کسی قوم کی حالت نہیں بدلتا جب تک وہ قوم اپنے آپ تبدیلی کا جذبہ نہ رکھے۔ مسلمان خواب غفلت سے آخر کب جاگیں گے ۔ ابھی تو اذان اور نماز کو برداشت نہیں کیا جارہا ہے ۔ شرعی احکام پر عمل آوری کو برداشت نہ کرتے ہوئے انسان کے تیار کردہ قانون کا پابند بنانے کی سازش ہے۔کھانے ، پینے ، لباس پر بھی مختلف پابندیاں عائد کی جارہی ہیں۔ کیا مسلمانوں کو اسپین جیسی صورتحال کا انتظار ہے؟
پارلیمنٹ کا مانسون سیشن 20 جولائی سے شروع ہوگا اور یہ سیشن یکساں سیول کوڈ کے قانون کے پس منظر میں اہمیت کا حامل ہے ۔ اطلاعات کے مطابق حکومت نے مانسون سیشن میں یکساں سیول کوڈ بل متعارف کرنے کی تیاری کرلی ہے ۔ یہ الگ بات ہے کہ حکومت نے مجوزہ بل کا مسودہ عوام میں پیش نہیں کیا۔ غیر واضح صورتحال کے نتیجہ میں مختلف مذاہب اور طبقات کو یہ طئے کرنے میں دشواری ہورہی ہے کہ یکساں سیول کوڈ پر کیا موقف اختیار کریں۔ حکومت نے لا کمیشن کو عوامی رائے حاصل کرنے کی ذمہ داری دی ہے ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب لا کمیشن نے عوامی رائے کے حصول کے بعد حکومت کو اپنے سفارشات پیش نہیں کیں تو پھر کس بنیاد پر پارلیمنٹ میں بل پیش کیا جائے گا۔ 2018 ء میں لا کمیشن یکساں سیول کوڈ کے نفاذ کے خلاف اپنی سفارشات پیش کرچکا ہے جس میں کہا گیا کہ ملک میں یکساں سیول کوڈ کی نہ ہی ضرورت ہے اور نہ عوام کا کوئی مطالبہ ہے۔ وزیراعظم نریندر مودی اور ان کی ٹیم نے آئندہ لوک سبھا انتخابات کی تیاریوں کے تحت یکساں سیول کوڈ کو ٹرمپ کارڈ کے طور پر استعمال کیا ہے۔ بی جے پی کے پاس کوئی عوامی مسئلہ ایسا نہیں کہ جس کی بنیاد پر تائید حاصل ہو۔ مذہبی جذبات کو مشتعل کرتے ہوئے اکثریتی طبقے کے ووٹ متحد کئے جاسکتے ہیں۔ ایک طرف یکساں سیول کوڈ کے نام پر مسلمانوں کو ڈرایا جارہا ہے تو دوسری طرف ماب لنچنگ اور لو جہاد کے نام پر تشددکا سلسلہ جاری ہے۔ یکساں سیول کوڈ کے نفاذ کے بارے میں مسلمانوں سے زیادہ سکھ اور قبائل نے شدت سے مخالفت کی ہے۔ جہاں تک سیاسی پارٹیوں کا تعلق ہے ، بی جے پی کی حلیف جماعتوں کو چھوڑ کر بیشتر قومی اور علاقائی پارٹیوں نے یکساں سیول کوڈ کی مخالفت کی ہے۔ عام آدمی پارٹی اور بی ایس پی کا موقف میڈیا میں حکومت کی تائید کی طرح پیش کیا گیا ۔ حالانکہ دونوں پارٹیوں نے واضح کیا کہ وہ یکساں سیول کوڈ کا مسودہ دیکھنے کے بعد ہی تائید یا مخالفت کا فیصلہ کریں گے ۔ شریعت کے خلاف انسانی قانون کے نفاذ کی کوششوں کی مخالفت جمہوری انداز میں کی جاسکتی ہے۔ صرف عدالتوں پر انحصار کرنا خطرہ سے خالی نہیں کیونکہ بابری مسجد کے معاملہ میں سپریم کورٹ سے مسلمانوں کو تلخ تجربہ ہوچکا ہے ۔ جس طرح جلی کٹو کی رسم کے حق میں ٹاملناڈو کے عوام سڑکوں پر نکل آئے تھے۔ اگر اسی طرح ملک کے 18 تا 20 کروڑ مسلمان خاموشی سے سڑکوں پر نکل آئیں تو حکومت تو کیا عدالتوں کو بھی مذہبی جذبات کا احترام کرنا پڑے گا۔ شرط اس بات کی ہے کہ مسلمان شریعت سے اپنی وابستگی کا اٹوٹ مظاہرہ کریں۔ کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے ؎
لکھی ہے ہم نے بھی شعلوں کے درمیاں تاریخ
ہمارے ہاتھ سلگتے رہے قلم نہ جلے