لگے گی آگ تو آئیں گے گھر کئی زد میں

,

   

فسادات … مسلمانوں کی معیشت پر حملہ
انتخابی ریاستوں میں تجربہ … مزاحمت اور حفاظت خود اختیاری ضروری

رشیدالدین
آگ فرقہ پرستی ، نفرت کی ہو یا پھر علاقہ واریت اور ذات پات کی ، اسے بھڑکانا تو آسان ہے لیکن بجھانا بہت مشکل ہے۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ آگ لگانے والوں کے قابو سے باہر معاملات ہوجاتے ہیں اور بسا اوقات بھڑکانے والے بھی زد میں آئے بغیر نہیں رہ سکتے۔ سیاسی فائدہ کیلئے یا پھر مسلمانوں میں خوف و دہشت کا ماحول پیدا کرتے ہوئے عدم تحفظ کا احساس پیدا کرنے فسادات کی آگ بھڑکائی جاتی ہے۔ یہ آگ جب بھڑکانے والوں کے آشیانوں کو اپنی لپیٹ میں لیتی ہے تو کف افسوس ملنے کے سوا کوئی چارہ نہیں رہتا۔ آگ جب بے قابو ہوجائے تو اس کی زد سے کوئی بھی بچ نہیں سکتا اور کسی مخصوص مذہب کے ماننے والوں سے زیادہ ملک کا نقصان ہوتا ہے۔ ترقی کیلئے امن ضروری ہے لیکن نفرت کے سوداگروں کو کون سمجھائے جو مرکز میں مودی حکومت کے اقتدار کے بعد سے بے قابو ہیں۔ انہیں ملک کی پرواہ کہاں ہے، وہ تو بس ہندو راشٹرا کے ایجنڈہ کے ساتھ سرگرم ہیں۔ انتخابی کامیابی کیلئے بی جے پی اور سنگھ پریوار کو نفرت کا ایجنڈہ آسان نسخہ کے طورپر حاصل ہوچکا ہے ۔ ترقی کے بجائے نفرت کے پرچار اور اسلام و مسلمانوں کو نشانہ بناتے ہوئے حال ہی میں اترپردیش اور دیگر ریاستوں میں کامیابی حاصل ہوچکی ہے۔ سیاسی کامیابی حاصل کرنا تو بنیادی مقصد ہے لیکن فسادات کے ذریعہ معیشت اور تشخص کو نشانہ بناتے ہوئے مسلمانوں کو پست ہمت کرنے کی سازش ہے تاکہ ہندو راشٹرا کی تشکیل میں کوئی مزاحمت نہ ہو۔ مذہبی تہواروں اور جلوسوں کے ذریعہ حالات بگاڑنے کے واقعات ملک میں فرقہ وارانہ فسادات کی تاریخ اپنے آپ کو دہرا رہی ہے ۔ رام نومی کے جلوسوں کی آڑ میں 5 ریاستوں کے 10 سے زائد مقامات پر فرقہ وارانہ تشدد پھوٹ پڑا اور چن چن کر مسلمانوںکی دکانات اور مکانات کو آگ کی نذر کردیا گیا ۔ دلچسپ بات تو یہ ہے کہ فرقہ وارانہ حساس ریاست اترپردیش میں کچھ نہیں ہوا۔ شائد اس لئے کہ وہاں ابھی ابھی یوگی ادتیہ ناتھ دوبارہ چیف منسٹر بنے ہیں اور وہاں فی الوقت سیاسی فائدہ کی ضرورت نہیں ہے ۔ جن 5 ریاستوں میں فسادات کی آگ بھڑکائی گئی ، ان میں گجرات ، مدھیہ پردیش ، راجستھان میں آئندہ سال اسمبلی انتخابات ہیں جبکہ مہاراشٹرا اور مغربی بنگال میں فساد دراصل وہاں کی مخالف بی جے پی حکومتوں کیلئے مشکلات پیدا کرنا ہے۔ گجرات اور مدھیہ پردیش میں اقتدار کو برقرار رکھنا مقصد ہے تو راجستھان میں کانگریس سے اقتدار چھیننے کا منصوبہ ہے۔ مدھیہ پردیش کے بعض علاقوں میں ابھی بھی کرفیو برقرار ہے۔ فسادات کی خاص بات یہ رہی کہ پانچ ریاستوں میں مسلمانوں کے جانی نقصان کے بجائے معیشت کی تباہی پر توجہ دی گئی ۔ ظاہر ہے کہ یہ آر ایس ایس اور سنگھ پریوار کے تھنک ٹینکس کی حکمت عملی کا حصہ ہوگا۔ رمضان المبارک جو عام طور پر مسلم تاجرین کے لئے تجارت اور آمدنی کے حصول کا اہم ذریعہ ہے ، اسی ماہ میں دکانات کو آگ لگادی گئی تاکہ معیشت کو کمزور کیا جائے۔ ظاہر ہے جب معیشت کمزور ہوجائے گی تو مسلمان حکومت کے آگے ہاتھ پھیلانے کیلئے مجبور ہوجائیں گے۔ مدھیہ پردیش ، گجرات اور راجستھان میں نظم و نسق تماشائی بنا رہا ۔ اتنا ہی نہیں پولیس نے کئی جگہ فسادیوں کی مدد کی۔ ایسا محسوس ہورہا تھا کہ جیسے نظم و نسق بالخصوص پولیس میں سنگھ پریوار کے کارندے داخل ہوچکے ہیں۔ شیوراج سنگھ چوہان حکومت نے تو ظلم کی انتہا کردی اور مسلمانوں کے مکانات پر بلڈوزر چلادیا ۔ ان پر سنگباری کا الزام عائد کرتے ہوئے بے گھر کردیا گیا ۔ اترپردیش میں یوگی ادتیہ ناتھ کی طرح شیوراج سنگھ چوہان بھی بلڈوزر کے دم پر کامیابی کا خواب دیکھ رہے ہیں۔ اگر مسلمانوں کی جانب سے سنگباری کو تسلیم کرلیا جائے تب بھی مکانات پر بلڈوزر چلانے کا حق کس نے دیا ؟ مقدمہ درج کرتے اور عدالت سزا دیتی لیکن یہاں تو شیوراج سنگھ چوہان قانون اور عدلیہ سے بالاتر ہوچکے ہیں۔ سزا کا فیصلہ جب بلڈوزرکے ذریعہ کرناہو تو عدالتوںکو بند کردیا جائے۔ ان کا وجود کس کام کا ؟ سنگباری کے الزام کی سزا مکانات پر بلڈوزر چلانا ہے تو پھر دکانات کو آگ لگانے اور مساجد و درگاہوں کی بے حرمتی کرنے والوں کے مکانات پر بلڈوزر کیوں نہیں چلتا ؟ فساد شروع کرنے کا آسان بہانہ مسلمانوں پر سنگباری کا الزام ہوچکا ہے۔ مذہبی جلوسوں کے ذریعہ اس بہانہ کے تحت فساد برپا کئے گئے، اب یہ بہانہ کافی گھسا پٹا ہوچکا ہے۔ ایک غریب آدمی اپنی محنت کی کمائی اور خون پسینہ ایک کر کے مکان تعمیر کرتا ہے اور کسی قصور کے بغیر آنکھوں کے سامنے مکان کو زمین بوس کردیا جائے تو دل پر کیا گزرتی ہے ، اس کا اندازہ شیوراج سنگھ چوہان کو نہیں ہوگا۔ کسی پرندے کے گھونسلے کو نقصان پہنچائیں یا اسے ہٹادیا جائے تو پرندے جمع ہوکر آوازیں کرتے ہیں۔ گویا وہ احتجاج کر رہے ہوں لیکن مدھیہ پردیش میں مسلمان پرندوں سے بھی گئے گزرے ہوگئے۔ مزاحمت اور احتجاج تو درکنار 100 سے زائد خاندان نقل مقام پر مجبور ہوگئے۔ بزدلی کا لبادہ اوڑھ کر کہاں تک راہِ فرار اختیار کروگے ۔ رہنا تو اسی ملک میں ہے تو پھر مزاحمت کیوں نہیں ؟ مرغی ، بکری اور بلی جیسے جانوروں پر ظلم کیا جائے تو وہ اپنے دفاع میں حملہ کرتے ہیں لیکن ہندوستان میں مسلمان ان سے بھی بدتر ہوچکے ہیں اور مزاحمت کا کوئی تصور باقی نہیں رہا۔ ملک کے موجودہ حالات میں ہر مسلمان کیلئے حفاظت خود اختیاری اہم ضرورت ہے۔ سرمایہ دار ہو کہ غریب ہر کسی پر یہ وقت آسکتا ہے ۔ مکانات پر بلڈوزر چلانے سے دل کو سکون نہیں ملا تو شیوراج سنگھ چوہان حکومت نے نقصانات کی پابجائی کے نام پر ہرجانہ وصول کرنے کا منصوبہ بنایا ہے ۔ اس منصوبہ کا مقصد مسلمانوںکی معیشت پر ایک اور ضرب لگانا ہے۔ ٹریبونل تشکیل دیا گیا جو تین ماہ میں نقصانات کا تخمینہ کرتے ہوئے وصولی کی کارروائی کرے گا۔ ظاہر ہے کہ مسلمان ہی ٹریبونل کا نشانہ ہوں گے۔ جن کے مکانات اوردکانات پہلے ہی خاکستر ہوچکے ہیں اور جو کچھ بچا تھا ، ان پر بلڈوزر چلادیا گیا تو پھر ہرجانہ کہاں سے ادا کریں گے۔ دہلی فسادات میں مسلمانوں کے ساتھ یہی سلوک کیا گیا تھا اور لاکھوں روپئے وصول کئے گئے جبکہ تباہی اور نقصانات کے ذمہ دار کوئی اور تھے۔
پولیس میں فرقہ وارانہ ذہنیت سرائیت کرنے کا واضح ثبوت مدھیہ پردیش میں دیکھا گیا جہاں مسلم نوجوانوں کے ساتھ پولیس کی بربریت نے اسرائیلی پولیس کے مظالم کی یاد تازہ کردی ہے۔ فلسطینیوں کے ساتھ اسرائیلی پولیس کا جس طرح رویہ رہتا ہے ، ٹھیک اسی طرح مدھیہ پردیش پولیس نے مسلم نوجوانوں کے ساتھ سلوک کیا ۔ ہوسکتا ہے کہ ریاست کے پولیس عہدیداروں نے اسرائیل میں ٹریننگ حاصل کی ہے۔ نفرت کے پرچار کیلئے بی جے پی اور سنگھ پریوار کافی نہیں تھے کہ راج ٹھاکرے میدان میں کود پڑے۔ مساجد پر لاؤڈ اسپیکر کی مخالفت کرتے ہوئے راج ٹھاکرے خود بی جے پی کا لاؤڈ اسپیکر بن گئے ۔ انہوں نے مساجد سے لاؤڈ اسپیکر ہٹانے کی حکومت کو مہلت دی ہے۔ وہ شائد بھول رہے ہیں کہ مہاراشٹرا کے عوام نے ایک سے زائد مرتبہ انہیں مستردکردیا ہے۔ خود کو بال ٹھاکرے کا حقیقی جانشین ہونے کا دعویٰ کرنے والے راج ٹھاکرے کو بی جے پی نے اس لئے میدان میں اتارا کیونکہ اودھو ٹھاکرے کی زیر قیادت مخلوط حکومت کسی خطرہ کے بغیر برقرار ہے۔ مہاراشٹرا کے عوام راج ٹھاکرے جیسے مایوس اور شکست خوردہ عناصر کا ساتھ نہیں دیں گے۔ بی جے پی کا بھونپوں بننے سے راج ٹھاکرے کو مستقبل میں سیاسی طور پر کوئی فائدہ ہوسکتا ہے۔ یہ وہی اذان کی آواز ہے جس کے احترام میں مودی نے اپنی تقریر کو نہ صرف روکا تھا بلکہ بی جے پی کی جانب سے ویڈیو وائرل کیا گیا۔ آر ایس ایس سربراہ موہن بھاگوت کو ہندو راشٹرا اور اکھنڈ بھارت کی بڑی عجلت ہے۔ انہوں نے آئندہ 15 برس میں اکھنڈ بھارت کی تشکیل کا دعویٰ کیا ہے ۔ سری لنکا ، بنگلہ دیش ، مقبوضہ کشمیر اور دیگر سابقہ علاقوں کو ہندوستان میں شامل کرنے کا خواب دیکھنے والے موہن بھاگوت پہلے شمال مشرقی ریاستوں کے عوام کو ہندوستان کا حصہ بنائیں۔ آج بھی کئی علاقے ایسے ہیں جو ہندوستان کا حصہ بننے کیلئے ذہنی طور پر تیار نہیں ہے۔ مودی حکومت کو اکھنڈ بھارت کی تشکیل سے پہلے مقبوضہ کشمیر حاصل کرنے کی ہمت دکھانی ہوگی۔ فسادات کے بعد جب ذمہ داری قبول کرنے کا مرحلہ آیا تو ہمیشہ کی طرح کسی ایک مسلم ادارہ کو ٹارگٹ کیا گیا۔ پاپولر فرنٹ آف انڈیا اور بیرونی ہاتھ کو فسادات کے لئے ذمہ دار قرار دیاجارہا ہے۔ اگر حکومت کو ہمت ہو تو پاپولر فرنٹ پر پابندی عائد کریں۔ ایسا ہرگز نہیں ہوگا کیونکہ پابندی عائد کردی گئی تو پھر آئندہ فسادات میں نشانہ کس کو بنائیں گے۔ اگر فسادات میں بیرونی ہاتھ ہے تو پھر شیوراج سنگھ چوہان کو چیف منسٹر کے عہدہ پر برقرار رہنے کا حق حاصل نہیں۔ راحت اندوری نے حالات کی کیا خوب ترجمانی کی ہے ؎
لگے گی آگ تو آئیں گے گھر کئی زد میں
یہاں پہ صرف ہمارا مکان تھوڑی ہے