لہجہ بتا رہا ہے کہ ناکامی کا ڈر ہے

   

تلنگانہ / اے پی ڈائری خیر اللہ بیگ
تلنگانہ راشٹرا سمیتی ( ٹی آر ایس ) آنے والے بلدی انتخابات کے لیے ان خدشات سے کھیل رہی ہے کہ عوام کی جانب سے اسے مسترد کردیا جائے گا ۔ اس صورت حال میں یہ بالکل فطری سی بات ہے کہ ٹی آر ایس کو رائے دہندوں کے غیض و غضب کا سامنا کرنا پڑے گا ۔ کے سی آر حکومت کی اچھی یا بُری پالیسیوں کے اثرات عوام دیکھ رہے ہیں ۔ ان انتخابات میں اگر کے سی آر کی پارٹی اپنی جگہ بنانے کے لیے کافی تگ و دو نہ کرے تو اس کا بہت کچھ داؤ پر لگ سکتا ہے ۔ ملک بھر میں مودی حکومت کی جانب سے لائے گئے شہریت ترمیمی قانون کے خلاف جاری احتجاج اور تلنگانہ میں اس قانون کو مسترد کرتے ہوئے نکالی جانے والی ریالیوں سے حکمراں پارٹی اور اس کے دم چھلہ قائدین کی دوری نے بھی عوام کو ناراض کردیا ہے ۔ چنانچہ ٹی آر ایس کے لیے یہ انتخابات اہم ہیں ۔ ایسے میں پارٹی کے اندر بڑھتے اختلافات ٹکٹوں کے حصول کے لیے رسہ کشی 22 جنوری کے میونسپل انتخابات سے قبل مختلف اضلاع میں پارٹی کے اندر پیدا ہونے والی ناراضگیوں نے چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ کو مضطرب کردیا ہے ۔ ہر ضلع میں ٹی آر ایس کے اندر دو گروپ کام کررہے ہیں ایک گروپ ان قائدین پر مشتمل ہے جو پارٹی کے ساتھ طویل عرصہ سے وابستہ ہیں اور دوسرا گروپ ان ارکان اور قائدین کا ٹولہ ہے جو 2014 کے بعد ٹی آر ایس میں شامل ہوا ہے ۔ یہی گروپ پارٹی قیادت پر حاوی ہونے کی کوشش کررہا ہے جب کہ پارٹی کے پرانے وفادار قائدین اور کارکن اپنا حق طلب کرنے کے لیے بلدی انتخابات میں ٹکٹ کے خواہاں ہیں ۔ گروپ ازم نے ، کے سی آر کو فکر مند کردیا ہے ۔ وہ بار بار پارٹی ورکرس پر زور دے رہے ہیں کہ ٹی آر ایس میں گروہ بندیوں کو فروغ نہ دیں ۔ اس کے باوجود جو قائدین بازو کی طاقت رکھتے ہیں اپنے لیے یا اپنے اقربا کے لیے ٹکٹ حاصل کرتے ہیں ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں ۔ ٹی آر ایس کو کئی اضلاع میں خاص کر محبوب نگر ، رنگاریڈی ، کھمم ، نظام آباد اور کریم نگر میں گرہ بندیوں کا شکار ہونا پڑا ہے۔ ان اضلاع میں پارٹی کے بعض با اثر قائدین کی وجہ سے گروہ بندیوں اور ناراضگیوں کو ختم کرنے کی کوشش میں کامیابی بھی ملی ہے لیکن کے سی آر اور کے ٹی آر کے لیے یہ بلدی انتخابات لوہے کے چنے چبانے سے کم نہیں ہیں ۔ کے سی آر کو اس سلسلہ میں سخت موقف اختیار کرنا پڑا تو پارٹی کو نقصان بھی ہوسکتا ہے ۔ اس لیے جو کے سی آر کل تک کڑی آواز رکھتے تھے اب نرم لہجہ سے کام لے رہے ہیں لیکن ان کا یہ نرم لہجہ ایک دن کڑک آواز بن جائے تو پارٹی کو استحکام مل سکتا ہے یا نقصان ہوسکتا ہے یہ دونوں صورت میں پارٹی کے مستقبل کی قیادت کا خواب دیکھنے والے قائدین کے لیے تشویش کا باعث بن رہا ہے ۔ ٹی آر ایس سے وفاداری کرتے ہوئے کانگریس چھوڑنے والے قائدین کو بھی ٹکٹ کے حصول میں پریشانی ہوگی ۔ کئی کانگریس قائدین نے ٹی آر ایس سے وفاداری دکھائی تھی لیکن انہیں کانگریس سے ہاتھ دھونا پڑا تھا ۔ اب وہ ٹی آر ایس کی ٹکٹ سے بھی محروم ہوں گے ایسے میں یہ لوگ ہر دو جانب گروپ میں پھوٹ ڈالنے کی کوشش کریں گے ۔ 22 جنوری کو تلنگانہ کی 120 میونسپلٹیز اور 9 میونسپل کارپوریشن میں 79.94 لاکھ رائے دہندے ہی ٹی آر ایس کے سیاسی استحکام کا فیصلہ کریں گے ۔ ایک سال کے اندر اسمبلی انتخابات میں شاندار کامیابی حاصل کرنے والی ٹی آر ایس کو ان میونسپل انتخابات میں ناکامی کا احساس زیادہ پیدا ہوا ہے ۔ اس کی وجہ شہریت ترمیمی قانون کے تعلق سے ٹی آر ایس حکومت کا غیر واضح موقف ہے ۔ ٹی آر ایس اور اس کی دوست پارٹی کے قائدین ان دنوں عوام کی نظروں میں آچکے ہیں کہ یہ قائدین عوام کی آواز میں آواز ملانے کے بجائے چار دیواری میں ہی بند ہیں ۔ میونسپل انتخابات میں ٹی آر ایس کی لڑائی اصل میں کانگریس سے ہی ہے ، کانگریس کو حالیہ مارچ سے عوام کی تائید حاصل ہوتے دکھائی دے رہی ہے ۔ اس کو دیکھتے ہوئے ٹی آر ایس کے کارگذار صدر کے ٹی راما راؤ نے پارٹی ورکرس کو متحرک کرنے کے اقدامات کئے ہیں ۔ کے ٹی آر نے پارٹی کیڈرس کے ساتھ جائزہ اجلاس منعقد کرنا شروع کردیا ۔ انتخابی مہم میں اختیار کی جانے والی حکمت عملی کا بھی جائزہ لیا گیا ہے ۔ گھر گھر مہم چلاتے ہوئے ٹی آر ایس کی اسکیمات سے واقف کرایا جارہا ہے ۔ کے ٹی آر کے لیے یہ انتخابات اس لیے بھی اہم ہیں کیوں کہ انہیں آئندہ کا چیف منسٹر بننے کے لیے اپنی سیاسی ساکھ کو مضبوط کرنی ہے ۔ وہ ہر ضلع میں گھوم پھر کر روڈ شوز کررہے ہیں ۔ ان کے ہمراہ ان کے وفادار ساتھی وزراء بھی ہیں ۔ تلنگانہ کے قیام کے بعد ہی حیدرآباد کے مضافات میں حکومت تلنگانہ نے 7 نئے میونسپل کارپوریشن اور 14 میونسپلٹیز قائم کیے تھے ۔ اب ان حلقوں میں ٹی آر ایس کو اپنا رنگ تازہ رکھنا ضروری ہے ورنہ کانگریس اپنا ہاتھ مار دے گی تو گلابی رنگ پھیکا پڑ جائے گا ۔ ہر علاقہ کے اپنے مسائل ہوتے ہیں ۔ شہری مسائل میں ان انتخابات کا اصل موضوع ہیں بلدی مسائل جیسے سڑکیں ، پینے کا پانی اور انفراسٹرکچر کو فروغ دینے کے وعدوں کو دیکھ کر ہی عوام ووٹ دیں گے ۔ کے سی آر نے ہر گھر پینے کے پانی کی سربراہی کا وعدہ کیا تھا لیکن کئی علاقوں میں پینے کا پانی ہنوز نہیں پہونچا ہے۔ اس ناکامی کے باوجود حکمراں کے سی آر کی زبان سے لے کر ان کے ترجمانوں تک ترقی کی سونامی چلتی سنائی دیتی ہے ۔ مگر تلخ ترین حقیقت یہ ہے کہ تلنگانہ کے اضلاع سے زیادہ گریٹر حیدرآباد کے بلدی مسائل پہلے سے زیادہ پریشان کن بن گئے ہیں ۔ یہ شہر پہلے سے زیادہ ابتری کا شکار ہوچکا ہے۔ عوام کو تو بازار سے گذرنے سڑکوں پر چلنے اور گلی کوچوں میں جانے سے ڈر ہونے لگا ہے ۔ تاریک گلیاں ، خراب کھڈ بھڑے سڑکیں، ابلتی موریاں اور مچھروں کی بہتات ، ٹریفک کا اژدھام آلودگی آبی اور فضائی دونوں آلودگیوں نے شہریوں کو سانس لینا محال کردیا ہے ۔ ٹی آر ایس نے شہر حیدرآباد کو عالمی شہروں کی صف میں کھڑا کرنے کا وعدہ کیا تھا لیکن اب یہ شہر خود اپنی عظمت رفتہ سے محروم ہوچکا ہے ۔ حکومت نے صرف زبانی جمع خرچ سے کام لیا ہے ۔ جب کہ اس شہر کے قائدین کی تقریر کی لذت سے محظوظ رہنے والے شہریوں کو بھی اپنے قائدین سے بڑی شکایات ہونے لگی ہیں ۔ ملین مارچ سے لے کر چھوٹی چھوٹی ریالیوں سے دور یہ قائدین عوام کی نظروں میں آچکے ہیں ۔ این آر سی یا سی اے اے کے خلاف آواز اٹھانے والے عوام کے درمیان سے غائب قیادت کو اپنا چہرہ دکھانے کی ہمت نہیں ہورہی ہے ۔ اس لیے اس قیادت نے پرانے شہر کے گلیوں میں ہی علامتی ریالی نکالنے کا فیصلہ کیا ۔ کہا جاتا ہے کہ مودی حکومت کے خوف سے اس قیادت نے نظر نہ آنے والی شیروانی تیار کر کے پورے شہر میں شیروانی پہن کر پھیرا مار رہے ہیں تاکہ اپنے رائے دہندوں کو یہ بتا سکے کہ وہ بھی ان کے درمیان موجود ہے ۔