مانسون اجلاس ایک ناٹک

   

کپل سبل
حال ہی میں پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کا اجلاس ختم ہوا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی آتما نربھرتا (خود انحصاری) کا ایک نظریہ رکھتے ہیں جو صرف معاشی شعبہ تک محدود نہیں ہے۔ یہ کارروائیاں ظاہر کرتی ہیں کہ ایوان میں کارروائی کس طرح چلائی جاتی ہے۔ حکومت مکمل طور پر خود انحصار رکھتی ہے: یعنی اس کو اپوزیشن کی ضرورت نہیں ہے جو سیاسی پارٹیاں مختلف نظریات رکھتی ہیں جو تحقیر، تاویل اور اس کے لئے مناسب کارروائی پر مبنی ہیں۔ ایوان کی روایات کا کوئی لحاظ نہیں کرتی۔ یہ خود انحصاری کی سطح جس میں کارروائی تبدیل کردی گئی تھی خود ایک ڈھونگ ہے۔

جمہوری کارروائی کو پارلیمانی کارروائی کے ذریعہ الگ تھلگ کردیا گیا ہے۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ ارکان ایک ہی کمرہ میں بیٹھتے ہیں۔ اس سے گرما گرم مباحث فکرانگیز مداخلتوں اور علی الاعلان لاکھوں افراد کے نظریات کا تبادلہ دیکھا جاتا ہے تاہم موجودہ مانسون اجلاس میں دونوں ایوانوں کے ارکان راجیہ سبھا اور لوک سبھا، سماجی فاصلے کے معیار کی بناء پر جو انتہائی معقول تھے منقسم ہوگئے تھے۔

اس کے نتیجہ میں ہم میں کئی افراد جو راجیہ سبھا سے تعلق رکھتے ہیں لوک سبھا منتقل کردیئے گئے تھے جو ایک وسیع ٹی وی کے پردے سے مربوط ہے جو راجیہ سبھا کے کمرہ میں بیٹھا اجلاس کی صدارت کرتا رہتا ہے۔ راجیہ سبھا کے 15 افراد کانگریسی ہیں جو ایوان بالا میں ہیں 10 اپنے کمرہ میں اور 5 گیالریز میں جبکہ باقی 26 کو لوک سبھا میں جگہ دی گئی تھی بہترین اوقات میں جبکہ وہ ایک کمرہ میں بیٹھے ہوئے تھے۔ یہ کہنا مشکل ہے کہ صدر نشین کی نگران کار نظر اپنا حصہ ادا کررہی تھی، جبکہ پوائنٹ آف آرڈر اٹھایا جاتا تھا۔ کانگریسی ارکان کی اکثریت اس بات کو ناممکن سمجھ رہی تھی کہ صدر نشین کی توجہ حاصل کرسکے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ صرف راجیہ سبھا کے کمرہ میں جو دورافتادہ تھا بیٹھے ہوئے تھے اور ایوان کی کارروائی میں سرگرم حصہ لے رہے تھے جبکہ اکثریت شمار نہیں کی جاسکتی تھی کیونکہ وہ بہت دور تھی۔ یہ منطق دیگر پارٹیوں کے لئے بشمول بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) بھی درست تھی۔

ضروری عناصر جو پارلیمان کی کارکردگی کے لئے ضروری ہوتے ہیں وقفہ سوالات کے دوران نمایاں تھے۔ یہ وہ وقفہ ہوتا ہے جب وزراء کو جواب دہ بنایا جاتا ہے۔ اس اجلاس میں وقفہ سوالات ترک کردیا گیا تھا۔ واحد ممکن وجہ یہ تھی کہ یہ نامعقول تھا لیکن ہر ایوان کا اجلاس چار گھنٹوں تک محدود رہا چنانچہ حکومت کی جوابدہی اہم نہیں تھی اور صرف اہم قانون سازیوں تک محدود رہی۔ اپوزیشن کو دستیاب واحد موقع جس کے ذریعہ وہ برسر اقتدار ارکان کی نااہلیت ظاہر کرسکتا تھا اسی طرح گذر گیا، سوالات کا وقفہ نہیں رہا۔ عوام اس کارروائی کا مشاہدہ کررہے تھے لیکن سرکاری بنچوں نے اہم قومی شکوک و شبہات کا ازالہ نہیں کیا۔

دوسرا مسئلہ یہ تھا کہ اجلاس بیکار تھا سوائے اس کے حکومت نے فرمان جاری کئے اور اس محدود وقفہ میں اس کے علاوہ کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔ راجیہ سبھا کو سب سے زیادہ محرومی کا سامنا کرنا پڑا۔ اس بار 3 بجے دوپہر تا 7 بجے شام اس کو اجلاس میں توسیع کا موقع ملا تاکہ ایوان کو اس کا احساس ہوسکے۔ یہ سہولت راجیہ سبھا کو دستیاب نہیں ہوئی کیونکہ اس کا اجلاس 3 بجے دوپہر سے قبل منعقد ہوا تھا۔ اس سے ایک اور تعصب کا ثبوت ملتا ہے۔ ہر شخص کو حیرت ہے کہ یہ اجلاس ضروری کیوں سمجھا گیا۔ صدارتی حکمنامہ جن کا تعلق زرعی پیداوار کی تجارت (فروغ و سہولت فراہم کرنا) تھا۔ قانون میں تبدیل کیا گیا۔ صدارتی حکمنامہ 2020 دوسرا اہم کام تھا جو کاشتکاروں (بااختیاری اور تحفظ) معاہدہ برائے اشیائے ضروریہ (ترمیمی) آرڈیننس 2020 جاری رکھا جاسکتا تھا۔ اس کے لئے ایوان کا اجلاس طلب کرنے کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔ خاص طور پر اس لئے کہ اس کی کوئی خواہش بھی نہیں کی گئی تھی کیونکہ کارروائی کی نوعیت تبدیل ہوگئی تھی، یعنی اپوزیشن کی سنوائی یا اگر اس کی پرواہ کی جائے تو حوالہ کی اجازت دینا جو قوانین کے بارے میں ہو جن کا تعلق مجلس قائمہ یا سلیکٹ کمیٹی سے ہوسکتا تھا اور اس پر فکرانگیز غور کیا جاسکتا۔

دیگر قوانین میں ترمیم کرنے کے بارے میں فوری توجہ ضروری تھی۔ یہ بھی کیا جاسکتا تھا اور اس کے لئے صدارتی حکمنامہ کا راستہ اختیار کیا جاتا کیونکہ بی جے پی نے کئی بار مباحث کا مظاہرہ کیا ہے اور اس کی نظر میں ان کی کوئی اہمیت نہیں ہے اور وہ قانون سازی کی کارروائی کو اہمیت دیتی ہے۔

جیسا کہ توقع تھی حکومت اس موڈ میں نہیں تھی کہ اس کا حوالہ دے تاکہ ان پر مزید غور و فکر کیا جاسکے اور ترمیمات پیش کی گئیں۔ اپوزیشن ارکان بشمول وہ جو بی جے پی کی دوسرے طریقہ سے تائید کررہے ہیں سوائے جنتادل (متحدہ) کے موجودہ نوعیت میں قانون سازی کے مخالف تھے۔ اگر تقسیم کی اجازت دی جاتی تو اس سے ظاہر ہوتا کہ صدارتی حکمناموں کی مخالفت وسیع پیمانے پر کی جارہی ہے۔ نائب صدر نشین نے مبینہ طور پر تقسیم کی درخواست مسترد کردی، اس طرح سیاسی پارٹیوں کو اپنا موقف واضح کرنے سے روک دیا اور ان کی ناراض آوازوں کو کچل دیا گیا۔ غالباً یہ حکومت کو گوارہ نہیں تھی اس کے بعد شور و غل کے دوران مارشلز کو ایوان کے حکم پر تعینات کردیا گیا بعد ازاں صدر نشین نے 8 ارکان کو معطل کردیا۔ یہ تمام واقعات اپوزیشن کو برداشت نہ کرنے کی حکومت کی ذہنیت کی عکاسی کرتے ہیں۔ تمام معطل ارکان ایوان پارلیمنٹ کے احاطہ میں مہاتما گاندھی کے مجسمہ کے سامنے رات تمام احتجاجی دھرنا دیتے رہے۔ وہ نائب صدر نشین کو سمجھانا چاہتے تھے کہ ان کے احساسات کیا ہیں جبکہ صبح میں نائب صدر نشین نے ان کے ساتھ ایک پیالی چائے نوش کی تھی۔ یہ ایک خیرسگالی کی علامت تھی جس کا مثبت ردعمل حاصل ہوسکتا تھا۔ اجلاس اپوزیشن کی جانب سے بائیکاٹ میں ظاہر ہوا جس نے اجلاس کے باقی عرصہ میں اس کا بائیکاٹ کیا۔ قائد اپوزیشن نے تشویش ظاہر کی کیونکہ صدر نشین نے ان کے ساتھ اچھا رویہ اختیار نہیں کیا تھا اور ان کی ترمیمات کو مختصر کردیا تھا۔درحقیقت حکومت مخالف آوازوں کو خاموش کرنے میں خوشی محسوس کرتی ہے۔ کسی بھی قسم کا احتجاج صدر نشین کے ساتھ صف آرائی سمجھا جاتا ہے اور مائیکرو فون بند کرکے اس کو کچل دیا جاتا ہے۔
سب سے بڑی بات یہ کہ خود اپنے آپ پر انحصار کرنے والے وزیر اعظم نے 2014 سے کسی بھی ایوان میں کسی بھی سوال کا جواب نہیں دیا۔ انہوں نے ترسیل کے لئے خود کلامی کو ترجیح دی۔ یہ کسی شخصیت کو الگ تھلگ کردینے کا ایک صحت مند مکالمہ ہوتا ہے۔ وہ اعداد و شمار پر اخلاق و کردار کی طاقت سے زیادہ انحصار کرتے ہیں۔ اب وقت آگیا ہے کہ کارروائی کو خدا حافظ کہہ دیا جائے کیونکہ پارلیمنٹ کا ادارہ جیسا ہوتا تھا ویسا ہی باقی نہیں رہا۔ آج صرف شاندار ماضی کی ایک ہلکی سی جھلک نظر آتی ہے۔