ماہرین کا خوف ہندوستان کے پاس پانی کے بحران کو ختم کرنے کے لئے محض پانچ سال باقی ہیں۔ ورنہ لاکھوں لوگوں کی زندگی خطرہ میں پڑسکتی ہے

,

   

نئی دہلی(سی این این)دنیا کی دوسری بڑی آبادی والا ملک پانی کی قلت سے دوچار ہورہا ہے۔ تقریبا ایک سو ملین لوگ سارے ملک میں پانی کی شدید قلت کا شکارہورہے ہیں۔

مجموعی طور پر 21بڑے شہر وں میں اگلے سال زیر زمین پانی بھی ختم ہوجائے گا‘ یہ تمام جانکاری نیتی آیوگ کی سال2018کی رپورٹ میں دی گئی ہے۔

ملک کے واٹر کمیشن نے جون میں کہا ہے کہ درکار بارش کا پانی ابھی کچھ علاقوں تک پپچھلے ہفتوں تاخیرسے پہنچا ہے‘ شدید گرمی کے سبب اس گرماکے موسم میں 137لوگ ہلاک ہوگئے۔

زیر زمین پانی جو پچھلے کچھ سالو ں سے ختم ہورہا ے‘ ملک میں 40فیصد پانی کی سربراہی کا اس پرانحصارہے۔ مگر دیگر ذرائع بھی خشک ہورہے ہیں۔

ملک کی دوتہائی کے قریب پانی کے ذخائر پانی کی عام سطح سے نیچے آگئے ہیں۔ وزیراعظم نریندر مودی نے حال ہی میں جل شکتی وزرات کی تشکیل دی ہے تاکہ آبی وسائل کا انتظا م کیاجائے اور 2024تک ہر گاؤں میں نل کے ذریعہ پانی فراہم کرنے کے لئے اپنے انتخابی وعدے پر زوردیا۔ مگر بہت سارے لوگوں کو ڈرہے یہ ممکن نہیں ہے۔

اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کی رپورٹ کے مطابق مذکورہ دنیا تیزی کے ساتھ ”ماحولیاتی تبدیلی“ کی سمت گامز ن ہے جہاں پر صرف دولت مند لوگ ہیں بنیادی وسائل جان لیوا خشک سالی‘ گرمی کی شدت اورقحط کی صورت میں حاصل کرسکیں گے۔

ہندوستان میں کچھ مقاما ت پر آفات پہلے ہی پہنچ گئی ہے۔

ہندوستان کی چھٹے بڑے شہر چینائی کو سربراہ کرنے والے چار آبی ذخائر خشک ہونے کے قریب ہیں۔

سینکڑوں او رہزاروں مکین سرکاری پانی کے ٹینکرس کے پاس گھڑے لے کر ان کو بھرنے کے منتظر رہتے ہیں اورحساس خدمات جیسے اسپتال اوراسکولوں میں جدوجہد چل رہی ہے۔

لوگ اسی خراب پانی میں اپنے سازوسامان کی صفائی کے لئے مجبور ہیں تاکہ پکوان کے لئے صاف پانی کی کچھ بوتلوں کی حفاظت کی جاسکے۔

یہ پانی کو پھیلتے ہوئے مستقبل کے ہندوستان کی ایک مثال ہے۔ نیتی آیوگ کی رپورٹ کے مطابق قومی سطح پر پہلے سے کم سے 600ملین لوگ پانی کے شدید بحران کاسامنا کررہے ہیں اور2000000لوگ ہرسال خراب پانی کے علاوہ غیرموثر پانی کی سربراہی سے ہلاک ہورہے ہیں

۔پانی کی قلت کے سبب ملک میں سلسلہ وار متعلقہ مسائل کی شروعات ہوسکتی ہے جس میں فوڈ سکیورٹی‘ گرمی کے دوران خطرہ‘ قئے دست او رہیضہ کی بیماریاں اور پانی کی رسائی کے لئے علاقائی تنازعات شامل ہیں

اہم شہروں۔
ہندوستان کی آبادی اس کی پانی کی سربراہی سے کہیں زیادہ ہے۔پچاس سال کے اندر چین کو پیچھے کرتے ہوئے ہندوستان دنیا کا آبادی میں سب سے بڑے ملک کے طور پر چین کو پیچھے کرنے کی تیاری میں ہے۔

اقوام متحدہ کے مطابق اور 2050تک اس میں 416ملین شہری لوگ شامل ہوجائیں گے۔

معمولی انفرسٹچکر کے ساتھ ہر سال اربنائزیشن کا مطلب ہے زیادہ تر شہرزائد آبادی کے بوجھ کو حل کرنے کے لئے مکمل طور پر تیار نہیں ہیں۔

اقوام متحدہ کی رپورٹ میں کہاگیاہے کہ2030تک دستیاب سربراہی کے لئے درکار پانی کی مانگ دوگنا ہوجائے گی۔

جس کی وجہہ سے لاکھوں لوگ خطرہ میں پڑ جائیں گے۔ ڈائرکٹر ورلڈ ریسورس انسٹیٹوٹیشن انڈیا کا اربن واٹر پروگرام سمراٹ باساک نے کہاکہ ”1990کے بعد ہندوستان کے شہروں میں مسلسل تبدیلی ائی ہے۔مگر یہ تبدیلی اس کو وسائل کو توجہہ میں رکھے بغیرائی ہے“۔

شہری جھیل او رتالا ب غیرقانونی قبضوں کا شکار ہوگئے ہیں جس کی وجہہ سے ماحولیات اورخشک سالی دونوں میں اضافہ ہوا ہے اور اس کا مطلب یہ ہوا کہ شہر وں میں عام طور پر ایسا جگہ موجود نہیں ہے جہاں پر بارش کاپانی اکٹھا کیاجاسکے۔

پانی کے بچاؤکے بھی سازوسامان ان کے پاس بہت کم ہے۔

بارش کی پانی کوجمع کرنے کا نظام‘پانی کوصاف کرنے کی عمل‘ اور ناکارہ پانی کو بہتر بنانے کا طریقہ۔ سرکاری نل بنگلور اور حیدرآباد جیسے شہروں میں سوکھ گئے ہیں جس کی وجہہ سے لاکھوں لوگوں کا انحصار سرکاری واٹر ٹینکرس پر ہے۔

ٹینکر کے متعلق بات سامنے ائی ہے کہ وہ کس کو کتنے پیسوں میں پانی سربراہ کرے گا اسکا فیصلہ کرتا ہے۔

چینائی شہر کے پڑوس میں واقع کیل پاوک کے ایک عمارت میں 15000روپئے میں تین ٹینکرس جس میں 24,000لیٹر پانی دستیاب رہتا ہے کہ فراہم کئے جاتے ہیں۔ اہمیت کاحامل ذریعہ کم آمدنی والے خاندانوں کے لئے قابل رسائی نہیں ہے