ماہنامہ’’ آج کل‘‘ ( نئی دہلی) مجتبیٰ حسین نمبر

   

محبوب خان اصغر
میرے پیش نظر جولائی 2019ء کا ماہنامہ ’’ آج کل‘‘ ہے ۔ یہ اردو کا بین الاقوامی ادبی اور ثقافتی رسالہ ہے جس کا میں لگ بھگ ربع صدی سے قاری ہوں ۔ اس کی اشاعت کا عمل اسی برس پورا کرنے کے قریب ہے ۔ آج کل اس رسالے کے مدیران جناب حسن ضیاء اور ڈاکٹر ابرار رحمانی ہیں جو اپنی علمی لیاقت و استعداد میں اپنی مثال آپ ہیں ۔ اس شمارے کی خصوصیت یہ ہے کہ یہ مجتبیٰ حسین نمبر ہے ۔ قبل ازیں کئی اکابرین علم و ادب پر آج کل کے متعدد گوشے اور نمبر نکالے گئے مگر وہ تمام مرحومین تھے ۔
مدیران نے روایت شکنی کرتے ہوئے زندہ ادیبوں اور شاعروں پر مشتمل نمبر کا سلسلہ شروع کیا ہے اور اس کے آغاز کیلئے پدم شری مجتبیٰ حسین صاحب کا انتخاب عمل میں لایا ہے۔ ہندوستان بھر میں ایسے کئی اردو کے رسائل ہیں جو مشاہیر پر نمبر نکالتے ہیں ۔ اس سے ایک بڑا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ فنکار سے متعلق کئی اہم معلومات حاصل ہوتی ہیں اور صاحب طرز ادیبوں کی تحریروں کی روشنی میں فنکار کے ادبی مقام و مرتبہ کا تعین کیا جاسکتا ہے ۔ چنانچہ اس نمبر میں اسیم کاویانی ، حقانی القاسمی ، مسرور احمد حیدری ، ڈاکٹر قیصر زماں ، ابراہیم افسر ، ڈاکٹر فرحت نادر رضوی ، ارشاد آفاقی ، شوکت احمد ملک ، ڈاکٹر مظفر حسین سید ، ڈاکٹر محمد نوشاد ، نارنگ ساقی اور سید امتیاز الدین کی تحریریں مجتبیٰ فہمی میں معاون ثابت ہوتی ہیں ۔ ڈاکٹر ظفر کمالی نے نذرمجتبیٰ حسین کے تحت صاحب نمبر کو منظوم خراج تحسین پیش کیا ہے ۔ واضح رہے کہ ڈاکٹر ظفر کمالی نے پدم شری مجتبیٰ حسین کے نام مشاہیر کے ڈھیروں خطوط کو کتابی شکل دی ہے اور ’’ بنام مجتبیٰ حسین‘‘ عنوان سے اس کی پہلی جلد نے بہت جلد ادبی حلقوں میں رسائی حاصل کرلی ہے ۔ عنقریب اس کی رونمائی کی تقریب بہار اور حیدرآباد میں منعقد ہوگی ۔ اس سے قطع نظر’’ ماہنامہ آج کل ‘‘ کا مجتبیٰ حسین نمبر سے متعلق کچھ عرض کرنا ہے ۔
پدم شری مجتبیٰ حسین کو ادب اور سماج کے گہرے رشتے کا شعور حاصل ہے ، نیز ملک کی ایک پوری تہذیب ان کے اندر سانس لیتی ہے ۔ان کی ہمہ گیر اور عظیم الشان شخصیت طنز و مزاح کے افق پر چھ دہوں سے بھی زیادہ عرصہ سے روشن ہے ۔ اس بیچ کئی فنکارپس منظر میں چلے گئے اور ان کے انداز فکر کے نقوش بھی دھندلا گئے ، مگر مجتبیٰ حسین کی تحریریں اب بھی سانسیں لیتی ہوئی محسوس ہوتی ہیں ۔ انہیں گہرا سماجی اور ادبی شعور ورثے میں ملا ہے ۔ انہوں نے سلاست، روانی ، برجستگی اور مدعا نگاری پر مشتمل ایک عمدہ نشر کا سلیقہ سکھایا ۔ مضمون کو الفاظ کا جامہ پہنانے میں وہ اس قدر ماہر ہیں کہ ان کی تحریریں پڑھتے ہوئے دشواری یا بوجھل پن محسوس نہیں ہوتا ۔
عابد علی خان مرحوم بانی روزنامہ ’’سیاست‘‘ ، محبوب حسین جگر مرحوم ادیب ، صحافی اور ابراہیم جلیس مرحوم دانشور و ادیب جیسی شخصیتوں کی قربت نے ان کے دل و دماغ کو روشنی دی اور ان کے فنی و ادبی مذاق کو پروان چڑھایا۔ انہوں نے مزاحیہ مضامین ، خاکے ، سفرنامے ، انشائیے اور تبصرے جو عوام و خواص میں اس قدر مقبول ہوئے کہ ہماری فکر و شعور کا اور ہماری تہذیب کا ایک اٹوٹ حصہ بن گئے ۔ ان کی علمی اور عملی اقدامات سے صرف نظر کر کے طنزو مزاح کی تاریخ نہیں لکھی جاسکتی ۔ انہوں نے جس خلوص اور دیانتداری سے اپنا تخلیقی سفر جاری رکھا وہ ادب سے ایک خاص سروکار سے غماز ہے ۔ ناقدین اور ماہرین نے انہیں ایک مفکر، دانشور اور عظیم مزاح نگار تسلیم کیا ہے ۔ مجتبیٰ حسین کی تصنیفی کاموں کا آغاز ان کی ملازمت کے دوران ہی شروع ہوگیا تھا اور یوں دیکھتے دیکھتے وہ دو درجن سے زائد تصانیف کے مصنف ہوگئے ۔ مختلف جامعات سے بشمول کشمیر یونیورسٹی مجتبیٰ حسین پر ایم فل اور پی ایچ ڈی کا سلسلہ ہنوز جاری ہے ۔ اتنا کسی نے لکھا ہے ؟ اتنا کوئی لکھ سکتا ہے ؟ ۔
مذکورہ عنوانات کے علاوہ مجتبیٰ حسین نے عالمی قومی اور مقامی مسائل پر بھی قلم اٹھایا ہے ۔ اردو کے عصری موضوعات اور مسائل کے حوالے سے ان کی تحریریں دلوں کو چھو لیتی ہیں ۔ بالخصوص اردو میں قارئین کے بحرن پر ان کی فکر لائق داد و تحسین ہے ۔ پروفیسر شکیل الرحمن لکھتے ہیں ’’ مجتبیٰ حسین ان مزاح نگاروں میں ہیں جو صرف دلچسپ انکشاف ہی نہیں کرتے بلکہ تازگی کے نئے احساس کے ساتھ المناکی اور مسرتوں کو اکثر ایسی قوت میں تبدیل کردیتے ہیں کہ جس سے زندگی پر اعتماد بڑھ جاتا ہے اور زندگی کی معنویت کا احساس ملنے لگتا ہے ۔ مجتبیٰ کی خوش طبعی اور ان کی زندہ دلی ایسی نورافشانی کرگئی ہے اور ایسی روشنی عطا کرتی ہے کہ کبھی اعتماد اور زندگی کی معنویت کے احساس کی شعاع سیدھے خط میں منعکس ہوتی ہے اور کبھی ایک سے زیادہ روشن تعمیرات ابھر آتی ہیں۔ یہی نہیں بلکہ اپنی فکر انگیز تحریروں سے رسالے کی زینت بڑھائی ۔ دونوں مدیران کو اور پدم شری مجتبیٰ حسین کو مبارکباد پیش کی جاتی ہے ۔