مجموعہ قوانین اسلام || (دفعہ وار مسلم پرسنل لا)| |سلسلہ نمبر: 5

,

   

باب: قوانین وارثت,,, وارثوں کی قسمیں اور ان کے حقوق کی ترتیب

● دفعہ (436):وارثوں میں بعض وارث بعض پر مقدم ہوتے ہیں، اس طرح ان کے کئی درجات بنتے ہیں، لہٰذا درج ذیل ترتیب و تفصیل کے مطابق ان کو حصہ ملے گا:(۱) اصحاب فروض : یہ وہ وارث ہیں جن کے حصے قرآن مجید ، حدیث رسول ؐ یا اجماع امت سے متعین ہیں اور میت کے ترکہ سے اولا انہیں مقررہ حصہ ملے گا۔(۲) عصبات : عصبہ وہ وارث ہیں جنہیں قرآن و حدیث میں ترکہ کا مستحق تو قرار دیا گیا ہے لیکن ان کے حصے متعین نہیں کئے گئے ہیں، بلکہ اصحاب فروض کے معین حصے دینے کے بعد جوکچھ بچتا ہے اس کے وہ مستحق ہوتے ہیں، اور اصحاب فروض کی غیر موجودگی میں پورے ترکہ کے وارث قرار پاتے ہیں۔(۳) اصحاب الرد: وہ اصحاب فروض ہیں جن کا میت سے نسبی رشتہ(میت سے ولادت کا تعلق) ہو اور وارثوں میں میت کا کوئی عصبہ نہ ہوتو باقی ماندہ ترکہ پھر دوبارہ سہام شرعی(شریعت کے متعین کردہ حصے) کے مطابق ان ہی اصحاب فروض پر تقسیم ہوگا۔(۴) ذوی الارحام: یہ میت کے وہ رشتہ دار ہیں جو نہ اصحاب فروض میں سے ہیں نہ عصبہ ، یہ لوگ اسی وقت وارث ہوں گے جب کہ میت کے اصحاب فروض اور عصبات میں سے کوئی نہ ہو، یا اصحاب فروض میں سے میت کی صرف بیوی یا شوہر ہو اور کوئی نہ ہو۔(۵) موصی لہ بجمیع المال: یعنی وہ شخص جس کے لئے میت اپنے پورے مال کی وصیت کرگیا ہو، مذکورہ بالا وارثوں میں سے اگر کوئی بھی وارث نہ ہو تو اسی شخص کو میت کا پورا مال دے دیا جائے گا، بیت المال میں نہیں دیا جائے گا۔(۶) اگر مندرجہ بالا مستحقین وراثت میں سے کوئی بھی وارث نہ ہو تو ترکہ شرعی اصولوں پر قائم نظام بیت المال میں جائے گا ، اور اگر ایسا بیت المال بھی نہ ہو تو زوجین کو دیا جائے گا۔تشـریح:(الف). اصحاب فروض کے مقررہ حصے دے دینے کے بعد اگر کچھ بچ رہا ہو اور میت کے قریب و بعید عصبہ میں سے کوئی نہ ہو جو اس باقی ماندہ مال کو لے سکتا ہو تو ایسی صورت میں اس باقی ترکہ کو ان ہی اصحاب فروض کے درمیان ان کے حصوں کے بقدر دوبارہ تقسیم کیا جائیگا، مگر ذوی الارحام کو نہیں دیا جائیگا ، اسی دوبارہ تقسیم کو اصطلاحاً ’’رد‘‘ کہا جاتا ہے، اور یہ رد صرف اصحاب فروض نسبیہ پر ہی ہوگا، اصحاب فروض سببیہ یعنی شوہر ، بیوی پر نہیں ہوگا، چنانچہ اگر میت کے ورثاء میں صرف بیوی یا شوہر ہو اور دوسرے عصبات یا اصحاب فروض نہ ہوں تو بیوی کو چوتھائی یا شوہر کو آدھا دے کر جو بچے گاوہ ذوی الارحام میں تقسیم ہوگا۔(ب). عصبات بنیادی طور پر دو طرح کے ہوتے ہیں، عصبہ نسبیہ اور عصبہ سببیہ ، لیکن اب عصبہ سببیہ (مولی العتاقہ) نہیں پایا جاتا، اور عصبہ نسبیہ کی پھر مختلف قسمیں بنتی ہیں(جن کی تفصیل عصبات کی بحث میں آئیگی)۔(ج). شرعی طور پر ذوی الارحام کے بعد مولیٰ الموالاۃ اور اس کے بعد _مقرلہ بالنسب علی الغیر_ کو حق وراثت ملتا ہے، لیکن اس قسم کے حقداروں کا وجود بہت کم اور شاذو نادر ہی ہوتا ہے، اس لئے وارثوں کی ترتیب میں انہیں ذکر نہیں کیا گیا، اگر کوئی میت ایسا ہوجس کے اصحاب فروض ، عصبات اور ذوی الارحام میں سے کوئی نہ ہو مگر اس کا وہ دوست ہے جس سے عقدولاء ہو چکا ہے تو یہی دوست جسے مولی الموالاۃ کہا جاتا ہے ترکہ کا مستحق ہوگا،[اس عقدولاء کی تفصیل اور شرط قانون میراث کی دفعہ: ۴۳۳) کی تشریح (د) میں دیکھی جائے]، اور اس کے ہوتے ہوئے مقرلہ بالنسب کو کچھ نہیں ملے گا، اور اگر مولیٰ الموالاۃ بھی نہ ہوں تو اب یہ مقرلہ بالنسب پائے گا، یعنی وہ شخص جس کے چچا یا بھائی ہو نے کا وہ میت اقرار کرچکا تھا،اور اسی اقرار پر وہ مرتے وقت تک رہا ، اور اگر یہ بھی نہ ہو تب موصی لہ بجمیع المال کو دیدیا جائیگا، اور اگر یہ بھی نہ ہو تو بیت المال میں جمع کردیا جائے گا۔یہ بھی واضح رہے کہ بعض اصحاب فروض کی حیثیت کبھی دوہری ہوجاتی ہے کہ وہ صاحب فرض اور عصبہ دونوں حیثیتوں سے ترکہ میں حصہ پاتے ہیں، اور بعض کبھی اصحاب فروض کے بجائے عصبہ ہی بن جاتے ہیں جیسا کہ آئندہ تفصیل سے واضح ہوجائے گا۔منجانب: سوشل میڈیا ڈیسک آل انڈیا مسلم پرسنل لا