محبت سےبھرپور زندگی|| بقلم:عبدالعظیم ملکاپوری

   

محبت سےبھرپور زندگی

“اے نبی کہہ دو، اگر تم حقیقت میں الله سے محبت رکھتے ہو تو میری پیروی اختیار کرو، الله تم سے محبت کرے گا ۔(آل عمران :31)

لفظ محبت خود اپنے اندر مٹھاس، کیف، رغبت، چاؤ، ارمان، لذّت اور کشش رکھتا ہے۔

ایمان لانے والے الله کوسب سے بڑھ کر محبوب رکھتے ہیں (البقرة:165)

ایمان کا راستہ ہی عشق و حسن کا راستہ ہے ۔حُسن لفظ احسان سے نکلا ہے ۔احسان اسی وقت کیا جاسکتا ہے جب دل میں محبت کے اثرات پا ئیدار اور مخلصانہ ہوں گے۔

ہوں گی اے محبت تیری تعبیریں بہت

انسان کو انسان سے فطری محبت ہوتی ہے۔یہی محبت وانس اس کو حقوق کی ادائیگی، اتحاد واتّفاق، مودّت و محبّت، مواخات وموالات ،چاہت ،عشق ، رحم ،والہانہ الفت کی طرف کشش رکھتی اور دل کھینچ لے جاتی ہے ۔ جس کی بنیادپر انسان چین وسکون، راحت واطمینان ،الفت اور بھر پور خوشیوں بھری زندگی گزارتاہے-

جن سے مل کر زندگی سے عشق ہو جائے وہ لوگ

آپ نے شاید نہ دیکھیں ہوں مگر ایسے بھی ہیں

راز زندگی

مثنوی میں مولانا جلال الدین رومی نے محبت کے اثرات کو بڑی خوبی اور اختصار سے بیان کیا ہے –

فرماتے ہیں

محبت تلخ کوشیریں ،

مٹّی کو سونا

نفرت کو محبت،

دردوالم کو شفا میں تبدیل کر دیتی ہے-

یہی محبت

تکلیف کو راحت،

قہرکو رحمت، قید کو جنّت بنادیتی ہے –

یہ وہ چیز ہے ہےجو

لوہے کو پگھلادیتی،

پتّھر کو موم کر دیتی،

تنِ مردہ میں حیات تازہ پھونک دیتی ہے –

بچّہ اپنی چوٹ دِکھاکر بڑوں کی ہمدردی حاصل کرنا چاہتا ہے ،تو بڑا شخص اپنی ناکامی، مسائل، بیماری اور تکالیف، محرومی کا تذکرہ کرکے لوگوں سے ہمدردی اور محبت حاصل کرنا چاہتا ہے ۔احسان کرنے والے کی محبت اور برائی کرنے والے کی عداوت یہ انسانی قلوب میں شامل ہے -پیارومحبت، جذبۂ زندگی میں ناگزیر ہے۔زندگی سے یہ کم ہوجائے تو پھر نفرت وشقاوت اس کی جگہ لے لیتی ہے –

محبت کیجیے، محبت بانٹیے

محبت وہ صِنف ہے کہ انسان ہی نہیں حیوانات تک محبت کرنے والے کو اپنا محسن ،مونس اوربہی خواہ مانتے ہیں -آپ جس کو چاہتے ہیں اس سے اپنے جذبۂ محبت کے بارے میں اظہار کیجے، پھر وہ آپ کے اُستاد، مربّی، والدیں، بیوی، بچے، بہن، بھائی، رشتہ دار، دوست، ساتھ کام کرنےوالے ساتھی collegue ہوسکتے ہیں –

من تو شدم تو من شدی، من تن شدم تو جاں شدی

تاکس نگوید بعد ازیں، من دیگرم تو دیگری

فرمایا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے

تین چیزیں محبت بڑھانے کا ذریعہ ہیں –

(1)شناسا، غیر شناسا سب کو السلام عليكم کہنا

(2)مخاطب کو بہترین نام سے پُکارنا

(3)دوسروں کے لیے مجلس میں جگہ پیدا کرنا-( حدیث)

تحفہ دینا، مدد کرنا، دل جوئی کرنا، خدمت کرنا، وقت پر کام آنا بھی محبت میں اضافہ کرتےہیں –

بزرگان دین اور صوفیاء کرام کی زندگیاں اسی محبت سے عبارت تھیں-یہی وہ محبت تھی جس نےدلوں کو مسخر کرلیا، انھوں نے دلوں پر حکومت کی اور لاکھوں لوگ ان پرجان نچاور کرنے لگے اور ان کے مریدہو گئے۔

حُبِ زندگی

محبت کیجیے اپنے آپ سے،

اپنےرب سے،

اپنے والدین سے،

اپنے اہل وعیال سے،

اپنے مقاصد زندگی سے،

اپنے نظریات اور اصولوں سے،

اپنے کاروبار اور معاش سے- انسانیت محبت کا مرکز ہے اور محبت انسانیت کی معراج۔اگر ہمارا علم ہمیں انسان سے محبت کرنا نہیں سکھاتا تو ایک جاہل بہتر ہے علم والے سے –

سڈنی اِسمتھ نےکیا خوب کہا

“محبت کرنا، محبت حاصل کرنا زندگی کی سب سے بڑی خوشی ہوتی ہے ۔محبت، محبت کا باعث ہوتی ہے ۔محبت گھنے سائے کی مانند ہوتی ہے”

کسی کی دولت، قابلیت، علم اور مقبولیت سے احساس کمتری میں مبتلامت ہو جائیے۔اپنی ذات کامثبت عکس دوسروں پر ڈالیے۔تان سین کی موسیقی، غالب کی شاعری، منٹو کی افسانہ نگاری، سّیدابو الاعلیٰ مودودیؒ

کی اِنشاء پردازی کے فن سے خود کا موازنہ مت کیجیے۔بلکہ ان کے فن سے محبت کرناسیکھیے- ایسا کرنے سے آپ کو سرور وکیف حاصل ہوگا –

آج انساں کو محبت کی

ضرورت ہے بہت

محبت ہرمرض کی دوا ہے۔آپ کی محبت مخلصانہ اورخیرخواہانہ ہو۔اسلام، ایمان، احسان، تقویٰ، ہجرت وجہاداور توبہ وانابت یہ عظیم عطایا ہیں اور یہ قبراور آخرت میں بہت کام آئیں گے- جو اللہ سے راضی، الله جس سے راضی اس کادل محبت ویقین، نور ایمان، قناعت، رضاوغنااور رجوع الی الله سے لبریز ہو گا۔

 تو چاہے جس سے محبت کر آخر اسے چھوڑ کر جاناہی ہے

 بے دلی ہائے تماشا کہ نہ عبرت ہے نہ ذوق

بےکسی ہائے تمنّا کہ نہ دنیا ہے نہ دین