محسن اِنسانیت سرکارِ دوعالم ا کے خواتین پر احسانات

   

خیر النساء علیم

رحمۃٌ للعالمینؐ لقب پانے والے رسول اللہ ا کے احسانات صرف مسلمانوں پر ہی نہیں بلکہ ساری انسانیت پر ہیں، اس بات کو سمجھنے کے لئے ضروری ہے کہ اس دور کے حالات اور انسانوں کے بگڑے ہوئے ماحول کو سمجھا جائے، جس دور میں نبی ا مبعوث ہوئے، آپ ا کا ظہور ایسے حالات میں ہواجبکہ ساری انسانیت تاریکی میں ڈوبی ہوئی تھی، نفس پرستی، اخلاقی روح، تہذیب کی شمع گل ہوچکی تھی، انبیاء کرامؑ کی تعلیمات‘ تحریف و تاویل کا شکار ہوکر اپنی اصلی شکل میں باقی نہیں تھیں، خدا اور خدائی تعلیمات کو بھلا دینے کے نتیجہ میں انسان‘ انسانیت کی سطح سے گر گیا تھا، ہر طرف ایک انتشار پھیلا ہوا تھا، انسان‘ انسان کے درمیان ایک تصادم تھا، چھوٹی چھوٹی باتوں پر ایک دوسرے کا خون بہانا بالکل آسان تھا، جھوٹی اَنا اور دولت کی محبت نے ان کو کچھ اس طرح اندھا بنادیا تھا کہ اپنے ہاتھوں اپنی بیٹیوں کو زندہ درگور کردیا کرتے تھے، شراب نوشی، جوا بازی، زناکاری ان کے محبوب مشاغل تھے، شرک و بت پرستی نے ہر اخلاقی حسن سے آزاد کردیا تھا، وہ ننگِ انسانیت بن کر رہ گئے تھے۔
ایسے پُرفتن ماحول میںنہایت ہی بگڑے ہوئے ماحول و معاشرے میں اللہ تعالیٰ نے حضور اکرم ا کو رحمۃٌ للعالمین بناکر مبعوث فرمایا، آپ ا نے بدی کے ہرطوفان سے لڑ کر اولادِ آدم کے لئے نجات کا راستہ کھولا،نظام عدل قائم کیا، پستی میں گرے ہوئے انسان کو بلند مقام پر پہنچایا، آپ ا کا انسانیت پر سب سے بڑا احسان یہ ہے کہ کئی معبودوں کے سامنے جھکے ہوئے سروں کو اٹھایا اور خدائے واحد کے سامنے اس کو جھکا کر سرفرازی و سربلندی بخشا، انسان کا تعلق اس خدا سے جوڑا جس نے اس کو پیدا کیا اور ساری کائنات کو اس کے لئے مسخر کیا، جو دن رات اس پر مسلسل نعمتوں کی بارش کرتا رہتا ہے ان نعمتوں سے فائدہ اٹھانے کے لئے اس کو بہترین صلاحیتیں اور سوچنے سمجھنے کے انداز سے نوازا۔
سرکارِ دوعالم ا نے سارے انسانوں کے سامنے ایک انقلابی کلمہ’’ایک اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ‘‘ پیش کیا، انسان کے دل و دماغ پر جو بے شمار معبود سوار تھے جس کے درمیان انسان بھٹک رہا تھا، اس سے انسانوں کو نجات دلائی۔
رسول اکرم ا کی سیرت طیبہ کے چند نہایت اہم پہلوؤں میں سے ایک پہلو خواتین کے تعلق سے آپ ا کا طرز عمل تھا، یہ غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے کہ رسول اللہ ا نے عورتوں کو کیا حیثیت دی؟ ان کے ساتھ آپ ا کے تعلقات اور معاملات کیسے تھے؟ عورتوں کی سماجی اور دینی حیثیت کو بلندیٔ وقار عطا کرنے میں آپ ا کا کیا کردار رہا؟
حقیقت یہ ہے کہ انسانی تاریخ میں رسول اکرم ا کی وہ ذات گرامی ہی ہے جس نے اللہ تعالیٰ کی رہنمائی میں عورتوں کی صحیح تربیت کی شناخت کی، اللہ کے رسول ا نے عورت کو جو عزت و عظمت کا مقام دیا، جس طرح اس کے حقوق کا خیال رکھا، آپ ا نے حصولِ علم کو مرد کی طرح عورت کے لئے بھی واجب قرار دیا، آپ ا نے مختلف احادیث میں عورت کے ساتھ بہترین سلوک کی تلقین کی، آپ ا نے فرمایا: عورتیں مردوں کا نصف حصہ ہے، نبی کریم ا کی نظر میں دنیا کی تین سب سے قیمتی متاع ہیں: (۱) نماز۔ (۲) خوشبو۔ (۳) عورت۔
نبی کریم ا نے صرف غلاموں کو ہی آقا کے برابر کھڑا نہیں کیا بلکہ صدیوں سے ظلم و ستم کا شکار بنی عورت کو عزت و شرف کے سب سے اونچے مقام پر بٹھاکر عورتوں کو ان کا جائز مقام دلایا ،نبی کریم ا نے رب کائنات کا یہ ارشاد نقل فرمایا: ایک جان سے پیدا کیا، اس کی جنس سے اس کا جوڑا بنایا۔
نبی کریم ا نے عورتوں کو مردوں کے برابر حقوق دئے، مردوں کی برتری کے چند جوابات بتائے ہیں کہ ’’مرداپنا مال خرچ کرتے ہیں، جس کی بنیاد پر عورت‘ مرد کے درمیان فرق کیا جاتا ہے، مرد تو قوت و طاقت کی بنیاد پر حاکم بن کر عورت کو محکوم بنایا کرتا تھا، آپ ا نے اس کو ختم کرکے پستی میں گری عورت کو بہت اونچے مقام پر بٹھایا، آپؐ نے ارشاد فرمایا: ’’جنت ماں کے قدموں کے نیچے ہے‘‘، یہ تصور دنیا کے کسی مذہب میں نہیں پایا جاتا، دائی حلیمہؓ جنہوں نے نبی کریم ا کو بچپن میں دودھ پلایا تھا، وہ آتیں تو آپ ا اُٹھ کر کھڑے ہوجاتے تھے، اپنی چادر مبارک کندھے سے اُتار کر نیچے بچھا دیتے، اس پر دائی حلیمہؓ کو بٹھاتے، آپ ا نے عملاً بتادیا کہ ماں کا کس قدر اونچا مقام ہے، کیسے ماں کی قدر و منزلت کی جانی چاہئے، آپ ا نے یہ ارشاد فرماکر کہ: ’’تم میں سب سے بہتر وہ لوگ ہیں جو اپنی عورتوں کیساتھ بہتر سلوک کریں، ان کے ساتھ اخلاق سے پیش آئیں‘‘ مردوں کو بتادیا کہ عورتوں کو کچل کر رکھ دینے میں تمہاری بڑائی نہیں ہے؛ بلکہ تمہارے اخلاق کا معیار اپنی عورتوں کیساتھ مساویانہ، منصفانہ اور عادلانہ سلوک ہے، یہ ارشاد فرماکر عورت کی اہمیت کو مستند کردیا کہ ’’دنیا ساری کی ساری متاع ہے، اور بہترین متاع نیک عورت ہے‘‘۔
نبی کریم ا نے اہم موقعوں پر بھی عورتوں کے حقوق کے تعلق سے خصوصی نصیحت اور وصیت فرمائی، حجۃ الوداع کے موقع پر آپ ا نے فرمایا: ’’عورتوں کے بارے میں میری طرف سے نصیحت قبول کرو، تم میں سب سے بہتر شخص وہ ہے جس کے اخلاق اچھے ہوں اور اچھے اخلاق والا وہ ہے جو اپنی بیوی کے ساتھ بہتر سلوک کرتا ہو‘‘۔
اسی طرح ایک موقع پر اللہ کے رسول ا نے فرمایا: ’’عورت ایک کمزور مخلوق ہے، مرد اپنی مہارت اور چالاکی سے اس کے استحصال کے راستے تلاش کرلیتا ہے‘‘۔
پوری انسانی تاریخ اس کی گواہ ہے، اسی لئے نبی کریم ا نے ہر طرح سے مردوں کو اعلیٰ اخلاق کا پابند بنانے کی کوشش کی تاکہ عورت مرد کے ظلم و استحصال سے محفوظ رہے، آپ ا نے خواتین کے ساتھ اچھا رویہ اور بہتر سلوک کو انسان کے بہتر ہونے کی پہچان اور معیار قرار دیا۔
رسول اللہ ا نے مردوں کے ساتھ عورتوں کی تعلیم پر خصوصی توجہ دی۔ ایک طرف رسول اللہ ا نے مرد کے ساتھ عورتوں پر بھی تعلیم کے حصول کو فرض قرار دیا، تو دوسری طرف خود ذاتی طور پر انہیں تعلیم دی، اس غرض سے ان کے لئے ہفتہ میں ایک دن مخصوص کیا، آپ ا انہیں گھر کے اندر بھی تعلیم دیتے تھے، مسجد میںبھی اور مختلف مجلسوں میں بھی، آپ ا نے مختلف انداز سے عورتوں کو تعلیم کے حصول میں آگے بڑھنے کی حوصلہ افزائی فرمائی، ایک موقع پر رسول اللہ ا نے ایک صحاؓبیہ کو بطور خود اس بات کا حکم دیا کہ وہ آپ ا کی زوجہ محترمہ حضرت صفیہؓ کو لکھنا سکھا دیں۔
یہ واقعہ اس بات کا شاہد ہے کہ نبی کریم ا عورتوں کے لئے پڑھنے کی طرح لکھنا سیکھنے اور اس کی صلاحیت پیدا کرنے کو بھی ضروری تصور کرتے تھے، عورتوں کی تعلیم کے تعلق سے رسول اللہ ا کی اسی پالیسی کا نتیجہ تھا کہ آپ ا کے گھر کی دوسری کئی خواتین بہت سارے مردوں کے مقابلہ میں زیادہ پڑھی لکھی اور عالمہ و فاضلہ بنیں، آپ ا کی زوجہ حضرت عائشہ صدیقہؓ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان سے دین کا ایک تہائی علم ملا ہے، اسلامی تاریخ میں ایسی لاتعداد نامور خواتین گذری ہیں جن کا علم اور علمی خدمات سے دنیا نے فائدہ اُٹھایا۔
نبی کریم ا کی نظر میں عورت ماں کی گود سے لے کر بوڑھاپے تک ہر ہر قدم پر خصوصی اہمیت اور اچھے سلوک کی مستحق ہے، جس کو آپ ا نے اچھے اسلوب، خوبصورت مثالوں اور تاکیدی ہدایتوں کے ذریعہ واضح فرمایا ہے، پیدائش کے ساتھ ہی لڑکی سے نجات حاصل کرنے کی کوششوں اور طریقوں کو انسانیت سوز قرار دیا، حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ ’’رسول اللہ ا کے گھر پر ایک عورت آئی، اس کے ساتھ دو چھوٹی بچیاں تھیں، بی بی عائشہؓ نے کھانے کی کوئی چیز اُسے لاکر دے دی، عورت نے اُسے لے کر اس کے دو ٹکڑے کئے،ایک ایک ٹکڑا دونوں بچیوں کو دے دیا، خود کچھ نہ کھائی، ایک ماں بھوکی رہ کر اپنی بچیوں کو کھلا کر دل کی راحت محسوس کرتی ہے، رسول اللہ ا نے فرمایا: ’’عورت کا یہ عمل اللہ تعالیٰ کی نظر میں بہت عظیم ہے‘‘۔
نبی کریم ا نے فرمایا: ’’عورتیں آبگینے کی طرح ہوتی ہیں، جو ذرا سی ٹھیس سے ٹوٹ جاتی ہیں، اس لئے اُن کے ساتھ نرمی کا برتاؤ کیا جانا ضروری ہے‘‘۔
انسانی سماج میں بیوہ عورتوں کا مسئلہ نہایت پیچیدہ رہا ہے، ان کی غربت ، ان کا اکیلا پن ہزاروں مسائل پیدا کرنے کا سبب ہے، وہ سماج کا نہایت دبا‘ کچلا طبقہ بن کر رہ جاتی ہیں، اس طرح ظلم و ستم کے خوگر عناصر کے استحصال کا شکار ہوتی ہیں، رسول اللہ ا نے ایسی بیوہ خواتین کو خصوصی توجہ کا مستحق بناکر ان کے لئے جد و جہد کرنے اور ان کی مشکلات کو دور کرنے کی تاکید فرمائی، عہد نبویؐ کا معاشرہ عورتوں کے تعلق سے ایک مثالی معاشرہ تھا جو عورتوں کے تعلق سے نہایت عادلانہ نقطۂ نظر اور خصوصی دلچسپی کی بناء پر وجود میں آیا تھا، عورتوں کوان کی ضرورت و حیثیت کے شایانِ شان ہر طرح کی آزادی اور ضروری حقوق حاصل تھے۔
رسول اللہ ا کے عورتوں کے تعلق سے منصفانہ اور ہمدردانہ طرزِ عمل کو رُو بہ عمل لانے کی آج وقت کی ایک اہم ضرورت ہے، بہر حال رسول اللہؐ کے عورت کے تعلق سے مثالی طرز عمل کو اختیار کرنے کی ضرورت ہے، جب تک اسوۂ محمدیؐ کے مطابق مسلم سماج میں عورتوں کو ان کا جائز حق نہیں مل جاتا تب تک مسلم معاشرہ صحیح اور تعمیری بنیادی پر ترقی نہیں کرسکتا۔عورت کی مظلومیت کی داستان دورِ جہالت سے اب تک چلتی آ رہی ہے، ایسے میں انسانیت کے لئے رحمۃٌ للعالمین ا کے دامنِ رحمت میں پناہ لینے کی سوا کوئی چارہ نہیں، صرف نبی اکرم ا کی حیاتِ طیبہ اور آپؐ کا پیغام ہی انسانیت کے لئے مشعلِ راہ ثابت ہوسکتا ہے۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ اُمت محمدی ؐکی ہر خاتون کو تمام آفات و بلیّات سے بچائے اور ہر شر سے حفاظت فرمائے۔ آمین٭
Ph. : 9866613643