مدھیہ پردیش کانگریس کا بحران

   

اور کیا چیز مجھے غم کے برابر دو گے
زخم کے پھول مرے سینے کے اندر دوگے
مدھیہ پردیش کانگریس کا بحران
کانگریس کے بعض قائدین پارٹی کے اندر نقصان پہنچانے کا کام کرتے رہے ہیں، ایسے قائدین وقت آنے پر اپنا اصلی رنگ دکھاتے ہیں۔ مدھیہ پردیش کے جوتیرآدتیہ سندھیا نے بھی اپنا رنگ دکھادیا ہے۔ بی جے پی کی جانب جھکاؤ رکھنے کا اظہار ہوتے ہی یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ وہ برسوں سے کانگریس میں رہ کر پارٹی کیلئے کس قدر تکلیف دہ رول ادا کررہے تھے۔ وسندھرا راجے کی طرح وہ بی جے پی میں شامل ہوتے ہیں تو پھر سابق چیف منسٹر راجستھان وسندھرا راجے کی یہ بات درست ہوتی ہے کہ جوتیرآدتیہ سندھیا کی گھر واپسی ہوئی ہے۔قومی پارٹی کانگریس کے لئے یہ قائدین اس کی جڑیں کمزور کرتے جارہے تھے۔ پارٹی ہائی کمان کی پارٹی پر گرفت برائے نام ہونے سے ہر پارٹی لیڈر اپنی چال چل رہا ہے۔ مدھیہ پردیش میں جو کچھ بحران پیدا ہوا وہ بھی کانگریس کی مرکزی قیادت کی مجبوری حالات کا ثبوت ہے۔ پارٹی کو ایک طاقتور لیڈر نہیں مل سکا ، وہ ریاستوں میں اپنی ساکھ اور دبدبے کو کس طرح قائم کرسکے گی ، اس لئے مختلف ریاستوں میں پارٹی کی حکمرانی چل چلاؤ کا معاملہ بن گئی ہے۔ ڈگ وجئے سنگھ کے ہٹنے کے بعد مدھیہ پردیش کانگریس کے لئے ایک طاقتور لیڈر کی ضرورت تھی۔ اسمبلی انتخابات میں پارٹی کو اقتدار کا موقع ملا تو ریاست کی باگ ڈور سنبھالنے کی ذمہ داری سونپنے میں بھی ہائی کمان نے غلط مشورہ پر عمل کیا، جس کی وجہ سے آج کمل ناتھ زیر قیادت مدھیہ پردیش کابینہ کو استعفی دینا پڑا۔یہ کہا جارہا تھا کہ مدھیہ پردیش کانگریس کو مضبوط بنانے کیلئے جیوترآدتیہ سندھیا کو ایک اہم سیاسی ذمہ داری دی جاتی تو بحران کی نوبت نہ آتی۔ پارٹی نے کمل ناتھ کو چیف منسٹر ی کی ذمہ داری دینے کا فیصلہ کرکے ایک گروپ کو خوش کیا تو دوسرا گروپ ناراض ہوگیا۔ مادھو راؤ سندھیا کے فرزند کی حیثیت سے جیوترآدتیہ سندھا بھی مدھیہ پردیش میں کانگریس کے ایک کلیدی لیڈر تھے۔ انہیں پارٹی کی بڑی ذمہ داری دی جاتی تو آج وہ بی جے پی میں شامل ہونے کیلئے کانگریس سے بغاوت نہ کرتے۔ اقتدار کے لالچ نے سندھیا کو اپنی مادر پارٹی سے غداری کرنے کیلئے اُکسایا ہے۔ اس غداری کی سزا کیا ہوگی یہ تو آنے والا وقت انہیں دے گا، لیکن انہوں نے بی جے پی سے ہاتھ ملانے کا فیصلہ کیا ہے تو اس کے ساتھ ہی اپنے برسوں کی سیاسی نیک نامی کو داؤ پر لگادیا ہے۔ محض سیاسی عہدہ کیلئے انہوں نے کانگریس کی حریف پارٹی سے وفاداری دکھائی ہے تو یہ بی جے پی کیلئے بھی خطرہ کی گھنٹی ہے کیونکہ جو لیڈر اپنی دیرینہ پارٹی کو وقت آنے پر تکلیف دیتا اور بحران میں مبتلاء کرسکتا ہے تو وہ بی جے پی کیلئے بھی مسئلہ بن سکتا ہے۔ مدھیہ پردیش سے راجیہ سبھا کیلئے کانگریس لیڈر پرینکا گاندھی کو نامزد کرنے کی سرگرمیوں کے درمیان سندھیا نے کانگریس چھوڑ دیا۔ بی جے پی انہیں راجیہ سبھا بناکر کر مرکز میں وزیر کا درجہ دینے کا وعدہ کررہی ہے تو پھر یہ تبدیلی سیاسی المیہ ہے۔ یہ حالات اور توڑ جوڑ کی سیاست ،سودے بازی سب سے زیادہ ملک کی فلاح و بہبود ، خوشحالی اور ترقی کے لئے نقصاندہ ہے۔ آج ملک کا معاشی نظام تباہ ہوچکا ہے۔ بی جے پی اپنے سیاسی ناپاک ہتھکنڈوں کے ذریعہ غیر بی جے پی حکومتوں کو گرانے کی سازش انجام دے رہی ہے۔ کانگریس ہائی کمان کو اپنی کٹر حریف بی جے پی کی چالاکیوں سے ہوشیار رہنے کی ضرورت تھی لیکن اس نے مدھیہ پردیش کی سیاست میں بحران کا باعث بننے والے لیڈر سندھیا کے سامنے کمل ناتھ کو ترجیح دی ۔ گذشتہ سال ستمبر میں جب مدھیہ پردیش کانگریس میں کمل ناتھ حکومت کے خلاف سندھیا نے دبے ہونٹ باغیانہ اظہار خیال کیا تھا تو کانگریس ہائی کمان نے دونوں قائدین کو دہلی طلب کرکے سمجھایا بجھایا تھا لیکن وہ سندھیا کے اندر لگی آگ کو بجھانے میں کامیاب نہ ہوسکی۔ سونیا گاندھی نے مدھیہ پردیش کے کئی کانگریس قائدین کی جانب سے لکھے گئے مکتوب کو بھی نظرانداز کردیا تھا جس میں انہوں نے سونیا گاندھی پر زور دیا تھا کہ وہ مدھیہ پردیش کانگریس صدر کے لئے سندھیا کو نامزد کریں۔ لیکن ڈگ وجئے سنگھ نے سندھیا کی مخالفت کی تو معاملہ دوسرا رُخ اختیار کرگیا۔ آج مدھیہ پردیش میں کانگریس حکومت کا بحران پارٹی کے سینئر اور جونیر قائدین کی آپسی رسہ کشی اور بی جے پی حکومت کی چالاکیوں ، بے ایمانیوں اور اپنی طاقت کے استعمال کا انجام ہے۔ بی جے پی کی یہ حرکت اب ہندوستان کی تمام روایات کو پامال کررہی ہے۔ آنے والے دنوں میں یہ اُلٹ پھیر کی سیاست مزید کئی گھر تباہ کرے گی۔ سمجھداری اسی میں ہے کہ غیر بی جے پی سیاسی پارٹیاں اپنے اپنے کیڈر کو سنبھال کر رکھنے کی فکر کریں۔