مذہب ‘ سیاست اور سیاستدان

   

ملک کی سپریم کورٹ نے ایک ریمارک کیا کہ اگرسیاستدان مذہب کا استعمال کرنا ترک کردیں تو ملک میں نفرت انگیز تقاریر کا سلسلہ فوری رک جائے گا ۔ یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ ہندوستان کی سیاست کو مذہبی رنگ دیدیا گیا ہے ۔ ہر مسئلہ کو مذہب کی عینک سے دیکھنے کا ملک کے عوام کو عادی کردیا گیا ہے ۔ حد تو یہ ہے کہ عیدوںاور تہواروںپر سیاست کی جا رہی ہے ۔ دیوالی اور رمضان کے حوالے سیاست میںدئے جا رہے ہیں۔ قبرستان اور شمشان کا تذکرہ کرنے سے گریز نہیں کیا جا رہا ہے ۔ مقامی سطح کے قائدین سے لے کر اعلی ترین عہدوںپر فائز قائدین تک بھی مذہبی سیاست کا سہارا لینے پر مجبور ہوگئے ہیں۔ عوام میںاپنی کارکردگی اور اقدامات کے ذریعہ جگہ بنانے میں ناکام رہنے والے قائدین کی اکثریت ایسی ہے جو سیاسی کامیابی کیلئے مذہب کا سہارا لینے پر مجبور ہوگئے ہیں۔ جس وقت سے سیاست میںمذہب کا دخل شروع ہوا ہے اس وقت سے ملک کے حالات میںابتری پیدا ہوگئی ہے ۔ ہر کوئی سیاست میںمذہب کا استعمال کرتے ہوئے کامیاب ہونا چاہتا ہے ۔ ملک کے عوام کو اس کا اس حد تک عادی بنا دیا گیا ہے کہ میڈیا بھی آج اسی نہج پر کام کرنے چلا ہے ۔ میڈیا میں بھی ہر مسئلہ کو مذہبی تعصب کی عینک سے دیکھا جا رہا ہے ۔ ہر مسئلہ کو ہندو ۔ مسلم کا رنگ دے کر پیش کرنے میں میڈیا نے مہارت حاصل کرلی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ سیاست دان بھی اسی رنگ کو اختیا رکرتے ہوئے عوام کو متاثر کرنے کی اور ان کی تائید و حمایت حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اسی سیاسی فائدہ کیلئے نفرت انگیز تقریر کا چلن بھی عام ہوگیا ہے ۔ کئی قائدین محض ان ہی انفرت انگیز اور زہر آلود تقاریر کے ذریعہ اپنا سیاسی کیرئیر برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ انہیں کوئی عوامی فلاحی اسکیم یا کام سے مطلب نہیں ہے وہ صرف زہر افشانی کے ذریعہ اپنی سیاست چمکانے میں مصروف ہیں اور اسی طرح سے دوسروں کو بھی اسی نہج پر کام کرنے کا موقع فراہم کرنے میں بھی لگے ہوئے ہیں۔ کوئی بھی اس بات پر غور کرنے کیلئے تیار نہیں ہے کہ اس طرح کی سیاست سے سماج پر کس طرح کے منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں ۔
سیاست دانوں کی اسی روش نے ملک کی ترقی کو بھی متاثر کردیا ہے ۔ ہندوستان جو گنگا جمنی تہذیب کا گہوار ہ رہا ہے اس کی پرامن اور یکجہتی والی فضاء کو مکدر کردیا گیا ہے ۔ عوام کے ذہنوں کو پراگندہ کرتے ہوئے انہیں بھی اسی رنگ میں رنگنے کی کوششیں بہت تیزی سے ہو رہی ہیں۔ سماج کے جو اہم طبقات ایک دوسرے سے قریب رہا کرتے تھے ۔ ایک دوسرے کے تہوار اور عیدوں میں ساتھ رہا کرتے تھے ان میںشریک رہا کرتے تھے اور خوشیاں بانٹا کرتے تھے وہ اب ایک دوسرے سے کترانے لگے ہیں۔ ایک دوسرے پر انہیںاعتماد نہیں رہ گیا ہے ۔لوگ ایک دوسرے سے مشکوک ہوگئے ہیں۔ انہیں اب ایک دوسرے سے ملاقات کرتے ہوئے خوشی محسوس نہیں ہو رہی ہے بلکہ ایک دوسرے کے تعلق سے دلوں میں کدورتیں پھیل گئی ہیں۔ یہ سارا کچھ سیاستدانوں کا کیا دھرا ہے ۔ سیاستدانوں نے اپنے فائدہ کیلئے عوام کے ذہنوںمیں زہر گھولا ہے ۔ انہیں ایک دوسرے سے متنفر کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی ہے ۔ کبھی مسجد کے نام پر تو کبھی مندر کے نام پر ‘ کبھی عید کے نام پر تو کبھی دیوالی کے نام پر ‘ کبھی کسی بہانے سے تو کبھی کسی بہانے سے صرف مذہب کو استعمال کرتے ہوئے سیاست کی گئی ہے جس کا لازمی نتیجہ یہ نکلا کہ ملک میں نفرت کا ماحول بڑھ گیا ہے اور کچھ لوگ نفرت پھیلانے کے ٹھیکے دار بن بیٹھے ہیں۔ انہیں اب صرف نفرت پھیلانے سے کسی اور کام سے دلچسپی نہیں رہ گئی ہے اور نہ ہی وہ سماج کی پھیلنے والی بے چینی کو خاطر میں لانے تیار ہیں۔
آج کے دور میں ملک کے جو حالات کردئے گئے ہیں وہ سبھی کو سوچنے پر مجبور کر رہے ہیں۔ عوام کو بھی جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ نفرت کی سیاست کرنے اور مذہب کا استحصال کرنے والوں نے ملک کو کہاں پہونچا دیا ہے ۔ ملک ک ماحول کس حد تک پراگندہ کردیا گیا ہے ۔ کس طرح سے لوگ ایک دوسرے سے متنفر ہونے لگے ہیں۔ کس طرح سے لوگ ایک دوسرے سے قریب آنے کی بجائے ایک دوسرے سے دور جانے لگے ہیں۔ آج ہمیں یہ سوچنے اور عہد کرنے کی ضرورت ہے کہ ملک میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور ایک دوسرے سے بھائی چارہ کے ماحول کو فروغ دیا جائیگا ۔ نفرت پھیلانے والوں کو اپنے فہم و فراست کے ذریعہ ناکام بنایا جائیگا اور نفرت کے ماحول کو ختم کیا جائے گا ۔