مرکزی ایجنسیوں کا بیجا استعمال

   

مرکز کی بی جے پی حکومت ایسا لگتا ہے کہ مرکزی ایجنسیوں کا اپنے سیاسی مخالفین کی آوازوں کو دبانے کیلئے استعمال کرنے پر اتر آئی ہے ۔ ویسے تو نریندر مودی حکومت کی پہلی میعاد ہی سے ایسی کوششیں ہوتی رہی ہیں تاہم ایک بات واضح طور پر دیکھنے میں آئی ہے کہ جس وقت سے مودی حکومت کو دوسری میعاد کیلئے پہلے سے زیادہ عوامی تائید ملی ہے اورا س کی لوک سبھا نشستوں کی تعداد میں بھی خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے اس کے بعد سے حکومت کے تیور بدل گئے ہیں۔ حکومت ہر کام انتہائی جلد بازی میں کرنے میں مصروف ہوگئی ہے ۔ حکومت کی جانب سے جہاں کئی اہم فیصلے کئے گئے ہیںاور کئی اہم قوانین کو لوک سبھا اور راجیہ سبھا کی منظوری دلائی گئی ہے وہیں حکومت ایسا لگتا ہے کہ اپنے خلاف اٹھنے والی آوازوں کو برداشت کرنے ہرگز تیار نہیں ہے ۔ حکومت چاہتی ہے کہ اس کے خلاف کوئی آواز یا صدائے احتجاج بلند کرنے والا ہی نہ ہو۔ حکومت نے اپنی پہلی میعاد میں کانگریس مکت بھارت کا نعرہ دیا تھا اور ایسا لگتا ہے کہ حکومت ملک میں اپوزیشن مکت صورتحال پیدا کرنا چاہتی ہے ۔ کچھ گوشوں کی جانب سے مسلم مکت بھارت کے نعرے بھی دئے جانے لگے ہیں لیکن حکومت اپنے عمل سے مخالفت کو ختم کرنے کیلئے ہر ممکن ہتھیار استعمال کرنے پر اتر آئی ہے ۔حالیہ عرصہ میں اپوزیشن سے تعلق رکھنے والے کئی اہم قائدین یا ان کے رشتہ داروں کے خلاف جو کارروائیاں شروع ہوئی تھیں ان کو دیکھتے ہوئے یہ اندیشے بے بنیاد نہیں ہوسکتے کہ مستقبل میں بھی دوسرے قائدین کی آوازوں کو دبانے کیلئے حکومت کی جانب سے کئی ہتھکنڈے اختیار کئے جاسکتے ہیں اور حکومت مرکزی ایجنسیوں کے بیجا استعمال سے ہرگز گریز کرنے والی نہیں ہے ۔ وہ ان ایجنسیوں کا اپنی سہولت کیلئے استعمال کر یگی ۔ حکومت کی یہ روش وفاقی طرز حکومت اور ملک کے دستوری اور قانونی ڈھانچہ کیلئے اچھی علامت ہرگز نہیں کہی جاسکتی ۔ یہ صورتحال ملک میں افرا تفری کی کیفیت پیدا کرسکتی ہے ۔ اس صورتحال سے بچنے کیلئے حکومت کو اقدامات کرنے کی ضـرورت تھی لیکن حکومت ہی ایسے اقدامات کر رہی ہے جس سے سیاسی بے چینی اور عملی طور پر نراج کی کیفیت پیدا ہونے کے اندیشے ہیں۔

حکومت کی جانب سے کسی بھی شعبہ میں مخالفانہ آوازوں کو برداشت نہیں کیا جا رہا ہے ۔ چاہے میڈیا کے گوشے ہوں یا پر سیاسی حلقے ہوں کسی بھی جانب سے اٹھنے والی آوازوں کو قبول کرنے کے موقف میں حکومت نظر نہیں آتی ۔ حکومت ہر طرح کے ہتھکنڈے اختیار کرتے ہوئے ان آوازوں کو دبانا چاہتی ہے جو جمہوریت کے مخالف اقدام کہا جاسکتا ہے ۔ حکومت کے اس طرح کے طرز عمل سے ملک کے دستوری ڈھانچہ پر بھی مشکلات آسکتی ہیں اور دستوری ڈھانچہ کے تحت کام کرنے والے ادارے بھی پریشانی محسوس کرسکتے ہیں۔ سیاسی مخالفین کے ساتھ سیاسی انداز میں نمٹنا ہر گوشے اور ہر پارٹی کا فرض ہے ۔ حکومت کو سب کو ایک نظر دیکھتے ہوئے صرف قانونی پہلووں کے مطابق کام کرنے کی ضرورت ہوتی ہے لیکن نریندرمودی کی حکومت ایسا لگتا ہے کہ حکومت کم اور سیاسی جماعت زیادہ کے طور پر کام کر رہی ہے اور اس طرح کی کارکردگی سے ہی مسائل پیدا ہوسکتے ہیں۔ حکومت کے سامنے کئی دوسرے مسائل موجود ہیں۔ ملک کی معیشت کی صورتحال مسلسل سنگین ہوتی جار ہی ہے ۔ کئی گوشوں میں روزگار کے مواقع کم ہوتے جا رہے ہیں۔ کئی شعبوں میں ملازمتیں گھٹتی جا رہی ہیں۔ صنعتی پیداوار میں کمی آتی جا رہی ہے ۔ ریٹیل کاروبار بری طرح متاثر ہوتا جا رہا ہے لیکن حکومت ہے کہ اپنے مخآلفین سے نمٹنے میں مصروف دکھائی دیتی ہے یا پھر اختلافی مسائل کو ہوا دی جا رہی ہے ۔

سیاسی مخالفین سے نمٹنے کیلئے سیاسی طریقہ کار اختیار کیا جاسکتا ہے ۔ اس کی بجائے سرکاری ایجنسیوں کا بیجا استعمال کرتے ہوئے انتقامی رویہ اختیار کرنا ہندوستان جیسے عظیم جمہوری ملک کی حکومت کیلئے ذیب نہیں دیتا ۔ حکومت کو اس طرح کے طرز عمل سے گریز کرناچاہئے ۔ ان ایجنسیوں کو یقینی طور پر ان افراد کے خلاف استعمال کیا جانا چاہئے جنہوں نے غیر قانونی کام کئے ہوں لیکن محض سیاسی مخالفین کو نشانہ بنانے ایسی ایجنسیوں کا استعمال کرنا درست نہیں ہوسکتا ۔ اس کے ذریعہ ملک کے دستوری اور قانونی ڈھانچہ پر منفی اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔ حکومت کو ایسی کوششوں کی بجائے ملک کے قانونی اور دستوری ڈھانچہ کو مستحکم کرنے اور ان میں عوام کا یقین بڑھانے کیلئے اقدامات کرنے کی ضرو رت ہے ۔