مسئلہ اپوزیشن کی قیادت کا

   

ملک بھر میں مسلسل شکستوں اور ہار کے باوجود اپوزیشن کی صفوں میں اتحاد کا فقدان ہی پایا جاتا ہے ۔ کئی مسائل ایسے ہیں جن پر اپوزیشن جماعتوں میں اتفاق رائے ہونا چاہئے لیکن ایسا ہو نہیں رہا ہے ۔ ہر جماعت اپنے اپنے منصوبوں کے مطابق اتحاد بنانا چاہتی ہے ۔ کوئی بھی جماعت ایسی دکھائی نہیں دے رہی ہے جو محض اپوزیشن اتحاد کے ایک نکاتی ایجنڈہ پر کام کرنے اور آگے بڑھنے کو تیار ہو ۔ ہر جماعت اپوزیشن اتحاد کی خواہاں ہونے کا دعوی کرتی ہے لیکن اس کی اپنی شرائط اور ترجیحات ہیں۔ یہ شرائط اور ترجیحات دوسروں کیلئے قابل قبول نہیں ہوسکتیں۔ کوئی جماعت کسی جماعت کو اتحاد میں شامل کرنا چاہتی ہے تو کوئی اس کی شمولیت کی مخالفت کر رہی ہے ۔ اپنے اپنے باہمی اختلافات کی بنیاد پر فیصلے کرنے کی یہ تمام جماعتیں کوشش کرر ہی ہیں لیکن ان کو کامیاب نہیں مل رہی ہے اور نہ ہی ملنے کی کوئی امید دکھائی دے رہی ہے ۔ ملک گیر سطح پر بی جے پی مخالف محاذ کی تیاری آج اپوزیشن کیلئے ترجیح ہونی چاہئے تاہم کوئی اس کیلئے آگے آنے تیار نہیں ہے ۔ کئی جماعتیں شائد اسی وجہ سے پس و پیش کا شکار ہیں کیونکہ وہ نہیں چاہتیں کہ کانگریس پارٹی اس اتحاد کی قیادت کرے ۔ یا پھر اس اتحاد کی قیادت کانگریس کے کسی لیڈر کے سپرد کی جائے ۔ اس طرح کی قیاس آرائیاں بہت عرصہ سے چل رہی ہیں جن میں کہا گیا ہے کہ کانگریس اتحاد کی قیادت کی دعویدار ہے ۔ حالانکہ بیشتر جماعتیں علاقائی ہیں لیکن کانگریس کی کمزور حالت کو دیکھتے ہوئے وہ اس کو خاطر میں لانے تیار نہیں ہے ۔ کانگریس بھی اپنی صفوں میں استحکام پیدا کرنے پر زیادہ توجہ نہیں دے رہی ہے ۔ کانگریس کو آئندہ انتخابات کیلئے ابھی سے بے تکان جدوجہد کرنے کی ضرورت ہے ۔ صورتحال کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے فیصلے کرنے کی ضرورت ہے اور شائد اسی سمت میں پہلا قدم بڑھاتے ہوئے کانگریس نے یہ واضح کردیا ہے کہ وہ کسی پر یہ مسلط کرنے کی کوشش نہیں کر رہی ہے کہ اپوزیشن اتحاد کی قیادت کس کے سپرد کی جانی چاہئے ۔ جو جماعتیں اس طرح کے اندیشوں کا شکار تھیں وہ محض قیاس آرائیوں کی وجہ سے ہی تھا ۔
آج بھی اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ بی جے پی سے ملک گیر سطح پر مقابلہ کرنے کیلئے کانگریس کو ساتھ ملانا ضروری ہے ۔ کئی علاقائی جماعتیں ہیں جو اپنی اپنی ریاست میںمستحکم ہیں اور بی جے پی کو ٹکر دے سکتی ہیں اور دے بھی رہی ہیں۔ تاہم کئی ریاستیںآج بھی ایسی ہیں جہاںراست مقابلہ کانگریس اور بی جے پی کے درمیان ہی ہے ۔ ان میںعلاقائی جماعتوں کا کوئی وجود نہیں ہے ۔ ان ریاستوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے کانگریس کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ کانگریس کو بھی اپنی کمزوریوں کا احساس اور اعتراف دونوں ہی کرنے کی ضرورت ہے ۔ جن ریاستوں میں پارٹی کا موقف کمزور ہو وہاںدوسروں کو آگے بڑھاتے ہوئے پارٹی کو پیچھے ہٹنے سے اور دوسرا موقف اختیار کرنے سے گریز نہیںکرنا چاہئے ۔ موجودہ صورتحال کے مطابق حکمت عملی بناتے ہوئے انتخابات کا سامنا کرنے کیلئے تیاری کی جانی چاہئے ۔ جس قدر جلد ہوسکے اپوزیشن کی صفوںمیںاتحاد پیدا کرتے ہوئے حکمت عملی بنانے اور بی جے پی کو نشانہ بنانے کے منصوبے تیار کرنے کی ضرورت ہے ۔ جتنا زیادہ وقت ان تیاریوں پر صرف کیا جائیگا اتنا ہی بی جے پی کو استحکام حاصل ہوسکتا ہے کیونکہ بی جے پی اپنی آئندہ سال کے پارلیمانی انتخابات کی حکمت عملی تیار کرچکی ہے اور وہ اس حکمت عملی پر عمل بھی شروع کرچکی ہے ۔ اس کے پاس وسائل کی کمی نہیں ہے اور نہ ہی کارکنوں میںجوش و خروش کا فقدان ہے ۔ یہ صورتحال اپوزیشن کی صفوں میںتاہم ضرور دکھائی دیتی ہے ۔
اب جبکہ کانگریس نے یہ واضح کردیا ہے کہ وہ اپوزیشن اتحاد کی قیادت کے مسئلہ پر اپنی رائے کسی پر مسلط کرنا نہیںچاہتی اور نہ ہی ابھی یہ طئے ہے کہ قیادت کون کریگا تو کئی علاقائی جماعتوں کے اندیشوں کا ازالہ ہوجانا چاہئے ۔ کانگریس کے اسی بیان کی بنیاد پر اتحاد کی کوششیں شروع کی جانی چاہئیں۔ ہر جماعت کو اپنے اپنے طور پر تجاویز پیش کرتے ہوئے دوسروں کو ہمنوا اور ہم خیال بنانے کی کوشش کرنی چاہئے ۔ جتنے بھی اتفاقی نکات ہیں ان کی بنیاد پر اتحاد کو آگے بڑھایا جاسکتا ہے ۔ اتحاد کی قیادت اب کوئی مسئلہ نہیں ہے ۔ یہ ایسا پہلو ہے جس پر انتخابات کے بعد کی صورتحال میں فیصلہ کیا جاسکتا ہے ۔