مساجد کا پیغام امت مسلمہ کے نام

   

(بابری مسجد کی شہادت اور اس کے بارے میں ہوئے فیصلے کے تناظر میں)

اے ایمان والو!ہمارے (مساجدکے)پیغام کوکامل توجہہ وانہماک سےسنو، کائنات کا خالق و مالک سب کا پالنہاررب العالمین ہےاور اس نے جس محبوب ہستی کو خاتم النبیین بنایاو ہ رحمۃ للعالمین ہیںاور ان پر جو صحیفہ ءہدایت نازل فرمایا وہ خاص طور پر ھدی للمتقین بھی ہے اورعمومی طور پر ھدی للناس بھی ہے ۔ہماری (دنیا بھر کی تمام مساجد کی )نسبت کعبۃ اللہ شریف سے جڑی ہوئی ہے ۔جس کی شان ’’ھدی للعا لمین ‘‘ہےجوسارے ایمان والوں کا قبلہ ہے ۔ جس کی طرف رخ کرکے سارے مسلمان نماز ادا کرتے ہیں، دین ِحق پر قائم رہتے ہوئےنماز میںاپنا رخ کعبۃ اللہ شریف کی جانب رکھنے والےگویا اس بات کا عہد کرتے ہیںکہ زندگی کے تمام شعبوں میں اسی رب کعبہ کے احکام کے آگے سرتسلیم خم کریں گے ۔لیکن اس عہد کے مسلمان کہاںتک پاسدار ہیں اس پر توجہہ کی ضرورت ہے ۔کیونکہ باطل سے منہ موڑ کر حق تعالیٰ کی طرف یکسوئی کے ساتھ متوجہہ ہونے کے معنی نماز تک محدود نہیں بلکہ تادم زیست باطل سےاپنا منہ موڑے رہنے کے ہیں خواہ وہ (باطل )کسی رنگ وروپ میں ہو۔انفرادی ،اجتماعی ،معاشی ، معاشرتی و سیاسی تمام امور میں اسلامی نظام حیات کورہبر ورہنما بنانے کے ہیں ۔معاشی مسائل کے حل کےلئے کسی غیر اسلامی نظام معیشت کو قبول نہ کرنے کے ہیں۔ غیر اسلامی نظام تمدن کی طرف بھولے سے بھی نگاہ نہیں اٹھانے کے عہد کی پاسداری کے ہیں ۔غیراسلامی نظام سیاست خواہ وہ کتنا ہی چکاچوند ہواس سے متاثر نہیں ہونگےبلکہ اسلامی نظام سیاست کی رحمت بھری چھائوں میں خود بھی رہیں گے اور اوروں کو بھی اس کے سائبان رحمت میںلانے کی جہد وسعی کریں گے ۔ایک وقت تھاجب ہم (مساجد)مال غنیمت کی تقسیم کے مراکز بھی تھے، معاشرہ کی بنیادی ضرورتوں کی تکمیل بھی ہمارے ہاں سے ہوتی تھی ۔ کوئی مسافر بستی میں آتا تو اس کی ہم ہی پناہ گاہ تھے،اس کے خورد و نوش اور وہ ضرورت مند ہوتا تو اس کی تکمیل بھی ہم کو آباد رکھنے والوں کے ذریعہ ہوجاتی تھی ، مسلم ہی نہیں بلکہ غیر مسلم مسافربھی ہمارے ہاں قیام کرتےاور ان کی ضرورتوں کابھر پور سامان ہوتا، مختلف مقامات سےمتعدد اغراض و مقاصدکے تحت ’’وفود‘‘ آتے ،اسلام کے دامن رحمت میں پناہ حاصل کرنے کیلئے،دین و ایمان کے تقاضوں کی جانکاری کیلئے ،حصول علم کیلئے،مصیبت زدہ ہوںتو مالی اعانت کیلئے،بیمار ہوں تو علاج و معالجہ کیلئے،آپسی کوئی رنجش و خلش ہویا کوئی نزع پیدا ہوگئی ہو تو اس کے ازالہ کیلئے ،الغرض ہم روحانی فیوض و برکات کے ساتھ بلا مذہب و ملت مادی منافع کی تقسیم کےعظیم مراکز تھے۔ خیر القرون پھر بعد کے ادوار میں قریبی زمانے تک ہم (مساجد) اسلام کے ترجمان رہے،کسی خاص مسلک و مشرب کے نہیں ،بلکہ جن خطوط پر سیدعالم صلی اللہ علیہ وسلم نےہمیں قائم فرمایا تھا انہیں خطوط پر ہم آباد رہے ۔آہ !غیروں سے کیا گلہ آج اپنوں سے گلہ ہے کہ انہوں نے ہماری (مساجدکی)قدر و قیمت بھلا دی ہے۔سجدوں سے آباد رکھنے ،خلق خدا کی مادی و روحانی ضرورتوں کوپورا کرنے ،اپنوں اور غیروں کے آپسی نزاعی معاملات کو حل کرنے،تعلیم کی روشنی کو عام کرنے ، عمدہ تربیت سےنسل انسانی کوآراستہ کرنے،سماج میں رہنے والے پتھر جیسے انسانوں کو تراش کر قیمتی نگینوں میں ڈھالنے کے بجائے اس امت نے ہم (مساجد)کو اختلاف و انتشار کی جگہ بنادیا ہے ۔ ہم اللہ سبحانہ و تعالی کے بابرکت گھر ہیںہماری نسبت صرف اسی سےہے اور یہ نسبت ہم کواسی نے عطا کی ہے،جو صرف اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی بڑائی و کبریائی بیان کرنے کیلئے مختص ہیں،مگریہاں اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی تسبیح ، تحمید اور تکبیرکے بجائے کبھی کبھی ایسے انسانوں کی بڑائی بیان ہونے لگی ہے جو حقیقت میں اس کے مستحق نہیں ۔ایسے افراد اس آیت پاک کے مصداق ہیں’’ وہ اپنے ناروا کاموں پر خوش ہیں اور چاہتے ہیں کہ جو کارنامے انہوں نے انجام نہیں دیئے اس پر بھی ان کی ستائش کی جائے‘‘۔(آل عمران :۱۸۸) اس آیت پاک کی روسےجاہ پسندی اور جھوٹی خوشامدکے مرض میں مبتلا ءافراد ایسے کاموںکیلئے اپنی تعریف کے متمنی رہتے ہیں جو انہوں نے انجام نہیںدئے ۔
اللہ سبحانہ و تعالیٰ ،ا س کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم، قرآن مجید اور کعبۃ اللہ کی نسبت سے ایمان والوں کو حق سبحانہ و تعالیٰ نے اخوت و محبت کی لڑی میں پرویا تھا ،ہاے افسوس! مسلمانوں نے دنیا پرستی ، خدا بے خوفی اور آخرت فراموشی کی وجہ اس کے تار وپود بکھیر دیئے ۔باطل پرستوں کے خلاف ان کے جذبات اتنے مشتعل نہیں جتنے حق پرستو ں کے خلاف ہیں۔ایمان والوں کی شان تو یہ ہے کہ وہ کفار پر سخت اور آپس میں رحمدل ہوتے ہیں۔(الفتح :۲۹)جبکہ حق اور حق پرستوں کی راہ میں ظلم و جور کے کانٹے بچھائے جارہے ہیں،نفرت و عداوت کی آگ بھڑکائی جارہی ہےاسلام مخالفین کے رویہ اور برتائو سے بغض و عنادجھلک رہا ہے،ایسے میں امن و سلامتی ،صلح و آشتی کا پیغام ہم (مساجد )سے عام ہو ۔،نفرت و عداوت کے بھڑکتے شعلوں کو اسی سے سرد کیاجاسکتا ہے۔ ہم (مساجد) پیار و محبت کا شجر سایہ داربنے رہیں ،کیا مسلم کیا غیر مسلم سب کیلئے ہمارے دروازے کھلے رہیں،ہر کوئی آئے اور اپنی تشنگی بجھائے۔اللہ سبحانہ نے اس امت کو منتخب ہی اس لئے کیا ہےکہ وہ حق پر قائم رہے اور حق کا علَم سربلند رکھے ،توحید کی شمع فروزاں رکھے ،اپنے اعمال کو بے داغ اور کردار کو صاف و شفاف رکھے، ظاہر و باطن میں یکسانیت پیدا کرے کہ یہ اعلیٰ جوہر ہے ،نفس کی طہارت و پاکیزگی حق کو مطلوب ہےاس کیلئے کوشاں رہے کہ اس میں دل کا نور اور روح کیلئے راحت و سرور ہے ،ہمارے (مساجدکے) گوشے ایسے ہی مصلیوں کیلئے ترس رہے ہیں۔
علامہ اقبال رحمہ اللہ نے ہماری ترجمانی کرتے ہوئے کہا تھا۔
مسجدیں مرثیہ خواں ہیں کہ نمازی نہ رہے
یعنی وہ صاحب اوصاف حجازی نہ رہے
طہارت وپاکیزگی کی اہمیت کا اندازہ اس سے بھی ہوتا ہے کہ اس کے عملی ہدایات پر عمل کرنے کے ساتھ اللہ سے رجوع رہ کر اس کیلئے دعا کرنے کی تلقین کی ہے اس خصوص میں کئی ایک دعائیں ہیں یہاں ایک مختصر دعا بتائی جاتی ہے جو وضو کے بعد کرنے کی ہے اور وہ دعا یہ ہے ۔ ’’اللھم اجعلنی من التوابین و اجعلنی من المتطہرین ‘‘ میں دو چیزیں مانگی گئیں، پہلے جملہ میں توبہ اور دوسرے جملہ میں طہارت وپاکی ،پہلے کا تعلق باطنی پاکی سے اور دوسرے کا تعلق ظاہری پاکی سے ہے۔اس لئے یہ امت خود کو ظاہری و باطنی پاکی وطہارت کا عملی پیکر بنائے ظاہر و باطن کے ساتھ ہماری (مساجد کی)صفائی و ستھرائی کا خاص خیال رکھے ،کفر وشرک کی آلودگی اور ہر طرح کے کوڑا کرکٹ سےہمیں پاک رکھے ، ہمارے پہلو میں جو طہارت خانے و وضو خانے ہیںوہ بھی صفائی و طہار ت کے حوالے سے اعلیٰ معیار کے ہوں،اس عہد کو یاد رکھے جو حضرت ابراہیم و حضرت اسماعیل علیہماالسلام سےاللہ سبحانہ نے لیاتھا کہ میرے گھر کو طواف کرنے والوں اور رکوع و سجدہ کرنے والوں کیلئے پاک و صاف رکھو،(البقرہ :۱۲۵)اس کے ساتھ اس امت کو چاہئے کہ وہ اپنے گھر وبار ، حال و ماحول کونظافت و طہارت کا پاکی و ستھرائی کا آئینہ دار بنائے رکھے ،رسول ر حمت صلی اللہ علیہ وسلم جو نظافت و طہارت کے داعی و امین ہیںان کے اس فرمان مبارک ’’ پاکی آدھا ایمان ہے‘‘ کو دلنشین رکھے۔ہمارے دامن (مساجد)میںپناہ لینے والوں کوباجماعت نمازوں کی صف بندی سے درس لینا چاہئےیہ صف بندی زندگی کے تمام شعبوں میںایسی ہی صف بندی کا درس دے رہی ہے جو سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح مضبوط ہو،اس ارشاد باری کو بھی یہ امت سرمہء بصیرت بنائے۔یعنی اسلام کے احکام و فرائض کی بجاآوری اور اس کی منع کی ہوئی چیزوں سے اجتناب کی پابند رہے ۔ اسلام ہی کو اپنا نظریۂ حیات بنائے ،زندگی تمام اسی پر کاربند رہے ،ان شاء اللہ موت بھی اسلام و ایمان ہی پر ہوگی۔اے ایمان والو! ’’اللہ سبحانہ سے ڈرو جیسے اس سے ڈرنے کا حق ہےاور تمہاری موت اسلام ہی کی حالت میں آئے ،،۔
’’ اور اللہ سبحانہ کی رسی کو سب مل کر مضبوطی سے تھامے رہو اور آپس میں افتراق و انتشار کو جگہ نہ دو (ال عمران :۔۱۰۲۔۱۰۳) تقوی اور اعتصام بحبل اللہ( یعنی اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رہنا )یہ دو ایسے اصول ہیںکہ اس کی بنیاد پر امت میں اتحاد قائم رہ سکتا ہے اور اسی سے امت کی دارین میں کامیابی و کامرانی اور نجات و مغفرت کا سامان ہوسکتا ہے ،موجودہ حالات میں اس کے عملی پیغام کی روح کو سمجھنا چاہئے۔