مسلمانوں کا قصور کیا ہے …؟

   

کیا مسلمان تلنگانہ کے شہری نہیں ہے؟
سماجی انصاف کا نعرہ کہاں گیا !
ٹی آر ایس حکومت کا خزانہ صرف مسلمانوں کیلئے بند !

محمد نعیم وجاہت
ملک کے مسلمانوں کی تعلیمی، معاشی، سیاسی پسماندگی کا جائزہ لینے کیلئے کئی کمیشنس اور کمیٹیاں تشکیل دی گئیں اور ان کمیٹیوں نے اپنی رپورٹس اور سفارشات بھی پیش کیں لیکن حکمرانوں نے کمیشنس اور کمیٹیوں کی تشکیل میں جو دلچسپی دکھائی، وہ دلچسپی ان کی سفارشات پر عمل کرنے میں نہیں دکھائی بلکہ یہ کہنا مبالغہ نہیں ہوگاکہ ان رپورٹس اور سفارشات کو برف دان کی نذر کردیا جس کی وجہ سے آزادی کے 75 سال بعد ملک اور ریاستوں میں مسلمانوں کی ترقی، خوشحالی، ملازمتوں کی فراہمی، خودروزگار کی فراہمی، صنعتوں کے قیام کے معاملے میں دوسرے مذاہب اور طبقات کے ساتھ حکمرانوں نے تعاون و اشتراک اور رہنمائی کی ہے، اس معاملے میں مسلمانوں کو نظرانداز کردیا گیا ہے۔ آزادی کے بعد سے ایس سی، ایس ٹی طبقات کو جہاں تحفظات فراہم کئے گئے وہی تمام شعبوں میں ان کی رہنمائی بھی کی جارہی ہے، اس پر بھی کوئی اعتراض نہیں ہے مگر ملک کی سب سے بڑی اقلیت مسلمانوں کو نظرانداز کرکے ملک کو ترقی دینے کا منصوبہ کامیاب نہیں۔ مسلمانوں کی تعلیمی، معاشی، سماجی، سیاسی پسماندگی کو ظاہر کرنے کیلئے صرف سچر کمیٹی اور رنگناتھ مشرا کمیشن کی رپورٹس کافی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ مسلمانوں دلتوں سے بھی پسماندہ ہے۔ ایک مرض کا دو طریقوں سے علاج نہیں کیا جاتا، دوسرے پسماندہ طبقات کیلئے جو اسکیمات روشناس کرائی جارہی ہیں، وہی اسکیمات مسلمانوں کیلئے بھی متعارف ہونی چاہئے۔
ملک کے سیاسی نظام میں مذہب اور ذات پات کو کافی اہمیت حاصل ہے، لیکن ہندوستان میں گزشتہ 70 سال کے دوران سیاست کو ذات پات کے علاوہ فرقہ واریت سے پاک رکھنے کی ممکنہ کوشش کی گئی لیکن 2014ء کے بعد حالت یکسر تبدیل ہوچکے ہیں۔ ملک کی بیشتر اور تمام ریاستوں میں اکثریت، اقلیت کے علاوہ ذات پات کی سیاست کو فروغ حاصل ہورہا ہے۔ ہندوستان کے رہنے والے ہی اتنی ذاتوں، علاقوں اور زبانوں میں تقسیم ہیں اور اب اس کی بھی سیاست ہورہی ہے۔ ہمیں جو سبق پڑھایا گیا تھا کہ وہ کثرت میں وحدت کا سبق تھا۔ گاندھی ہوں کہ ڈاکٹر امبیڈکر، پنڈت نہرو یا مولانا عبدالکلام سب نے ہندوستان کو ایک سکیولر مملکت کی حیثیت سے ترقی دلانے کی منصوبہ بندی کی تھی۔ آج کئی شکلوں میں پٹیل کے نظریات کے حامی عوام کو تقسیم کرنے اور دستور کی روح کے خلاف اپنی حکومت چلانے کی کوشش کررہے ہیں۔ بہرحال تشکیل تلنگانہ کے بعد کہا گیا تھا کہ سب کے ساتھ سماجی انصاف ہوگا اور سنہرا تلنگانہ تشکیل پائے گا جس پر بھروسہ کرتے ہوئے عوام نے ٹی آر ایس کو موقع فراہم کیا اور اس شخص پر بھروسہ کیا جو کبھی وعدوں پر قائم نہیں رہا۔ نتیجہ آج ہمارے سامنے ہے، تلنگانہ میں پسماندہ دلتوں سے کئے گئے وعدوں کو تو پورا کیا جارہا ہے لیکن مسلمانوں سے کیا گیا ایک بھی وعدہ پورا نہیں کیا گیا۔ 7 سال کے دوران مسلمانوں کو وقف کمشنریٹ سے لے کر کئی اسکیمات کا لالچ دیا گیا اور 12% مسلم تحفظات سے اسلامک سنٹر کی تعمیر تک کے اعلانات کئے گئے، لیکن کسی ایک اعلان پر عمل آوری نہیں ہوئی۔ اس کے برعکس ایس سی، ایس ٹی طبقات کیلئے مختص کئے جانے والے غیراستعمال شدہ بجٹ کی واپسی نہ ہو، اس مقصد سے ایس سی، ایس ٹی سب پلان کو منظوری تو دوسری طرف دلتوں کو دلت بندھو اسکیم کے ذریعہ فی خاندان 10 لاکھ روپئے دیئے جارہے ہیں۔ بنجارہ ہلز میں قیمتی اراضی پر بنجارہ بھون کی تعمیر تقریباً مکمل کی جاچکی ہے جبکہ عالمی معیار کے اسلامک سنٹر کا اب تک سنگ بنیاد بھی نہیں رکھا گیا ہے۔ مسلمان کو اسلامک سنٹر کا ہی نہیں بلکہ سکریٹریٹ کی دو شہید کردہ مساجد اور عنبرپیٹ میں سڑک کی توسیع کے دوران شہید کردہ مسجد یکخانہ کی تعمیر کا انتظار کررہے ہیں۔ انتخابات میں کامیابی کیلئے ہر سیاسی جماعت مختلف وعدے کرتی ہے، یہ کوئی نئی بات نہیں ہے، لیکن آزاد ہندوستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ گھریلو شرح پیداوار سے زیادہ رقم ایک حلقہ اسمبلی میں ایک طبقہ سے تعلق رکھنے والے عوام پر خرچ کرنے کا منصوبہ تیار کیا گیا ہے جوکہ انتہائی گمراہ کن ہیں۔ ریاست تلنگانہ کی جی ایس ڈی پی کا مشاہدہ کیا جائے تو وہ سال 2020-21ء کے دوران 84 ہزار کروڑ روپئے ہے۔ جبکہ حکومت کی جانب سے حلقہ اسمبلی حضورآباد کے 22 ہزار دلت خاندانوں کو فی کس 10 لاکھ روپئے دینے کا اعلان کیا گیا ہے جوکہ مجموعی اعتبار سے ایک لاکھ 70 ہزار کروڑ روپئے سے تجاوز کرنے والی رقم ہے۔ حکومت کی جانب سے جو سالانہ بجٹ پیش کیا جاتا ہے۔ اس کے مطالبات زر کی تکمیل کیلئے 30% تا 35% قرض حاصل کیا جارہا ہے اور بجٹ کا 10% حصہ بطور سودا ادا کیا جارہا ہے۔ مجموعی اعتبار سے سالانہ بجٹ کا 50% حصہ قرض اور سود پر مبنی ہوتا ہے جبکہ 40% حصہ تنخواہوں کی ادائیگی و دیگر اخراجات کی تکمیل پر استعمال ہوتا ہے۔ موجودہ حکومت مختص 10% رقم فلاح و بہبود پر خرچ کررہی ہے۔ اس صورت میں ایک لاکھ 70 ہزار کروڑ روپئے کہاں سے لائے گی جو دلتوں میں تقسیم کرنے کا منصوبہ بنایا گیا ہے۔ مسلمانوں کو تقسیم کرنے کیلئے ریاستی حکومت کے پاس 50 ہزار روپئے بھی نہیں ہے لیکن دلتوں کے معاملے میں حکومت خزانے کھول رہی ہے۔ حکومت ہی نہیں تمام سیاسی جماعتیں دلت بندھو اسکیم کا خیرمقدم کررہی ہیں لیکن کسی بھی جماعت کو یہ توفیق نہیں ہوئی کہ وہ ان مسلمانوں کیلئے آواز اُٹھائے جنہیں سچر کمیٹی نے دلتوں سے بھی ابتر حالت میں زندگی گزارنے والا قرار دیا ہے۔