مسلمانوں کی کیوں دشمن ہے پولیس؟

   

محمد ریاض احمد
حالیہ عرصہ کے دوران ہمارے وطن عزیز ہندوستان میں کچھ ایسے واقعات پیش آئے ہیں جس سے محکمہ پولیس میں بڑھتی فرقہ پرستی کا اظہار ہوتا ہے۔ ایک بات ہماری مرکزی و ریاستی حکومتوں کے ساتھ ساتھ نفاذ قانون کی ایجنسیوں کے علاوہ سی بی آئی اور این آئی اے جیسی ایجنسیوں کو یہ جان لینا چاہئے کہ اگر ملک میں قانون کی حکمرانی کو یقینی بنانا ہوتو عوام کے ساتھ بلالحاظ مذہب و ملت رنگ و نسل یکساں سلوک روا رکھا جانا چاہئے کیونکہ قانون تو سب کے لئے یکساں ہوتا ہے اور دستور ہند نے تمام ہندوستانیوں کو باوقار زندگی گذارنے اپنی مذہب کی تبلیغ کرنے کا پورا پورا حق دیا ہے۔ اگر ملک میں عوام کے ساتھ نفاذ قانون کی ایجنسیاں اور انصاف کے ادارے مذہب اور ذات پات و علاقوں کی بنیاد پر ناانصافی کرنے لگیں تو یہ کسی بھی طرح ہمارے ملک کے مفاد میں نہیں ہے۔ اس طرح کی حرکتوں سے صروف اور صرف ہمارے جنت نشاں ہندوستان کو نقصان ہوگا۔ راقم الحروف کی اس تمہید کا مقصد اپنے ہم وطنوں کو یہ بتانا ہے کہ ہمارے ملک میں فرقہ پرستی میں پچھلے 16 برسوں کے دوران خطرناک حد تک اضافہ ہوا ہے۔ مسلمانوں، عیسائیوں پر مذہب کی بنیاد پر حملے کئے گئے جبکہ دلتوں اور قبائل کو ذات پات کی بناء پر حملوں کا نشانہ بنایا گیا۔ خاص طور پر مودی کی زیر قیادت بی جے پی کے اقتدار میں آنے کے بعد فرقہ پرستی کے لے ساری دنیا میں بدنام ریاست گجرات کا ماڈل ایسا لگتا ہے کہ ملک بھر میں آزمایا جارہا ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ قانون کی رکھوالی اور امن و امان کی برقراری کس کے ہاتھوں میں ہوتی ہے؟ اس کا جواب یہی ہے کہ مرکزی و ریاستی حکومتوں اور پولیس کے ہاتھوں میں ہوتی ہے تو پھر کیا وجہ ہے کہ سارے ملک خاص طور پر بی جے پی کی زیر اقتدار ریاستوں میں مسلمانوں پر حملوں میں اضافہ کیوں ہوا؟ ہجومی تشدد کے نام پر مسلم نوجوانوں کی زندگیاں کیوں چھینی گئیں؟ مذہب کی بنیاد پر مسلمانوں کی املاک کو نقصان کیوں پہنچایا گیا۔ ان کے تجارتی ادارے کیوں تباہ کئے گئے۔ مسلمانوں سے منسوب باوقار تعلیمی اداروں میں زیر تعلیم طلبہ کو شدید زدوکوب کرتے ہوئے ان کے خلاف مقدمات درج کیوں کئے گئے۔ فرقہ وارانہ فسادات ہو یا ہجومی تشدد کے واقعات مسلمانوں کی جانیں جاتی ہیں۔ ان کی املاک کو نقصان پہنچتا ہے اس کے باوجود گرفتاری بھی مسلم نوجوانوں کی عمل میں آتی ہیں۔ ایسا کیوں ہوتا ہے؟ کیوں؟ کیا ہماری حکومتیں نااہل ہیں۔ ان میں فرقہ پرستی سے نمٹنے کا سلیقہ نہیں پایا جاتا یا پھر ہماری حکومتوں اور حکمرانوں یا حکمراں جماعتوں کے اشاروں پر ظلم و جبر کی یہ داستان رقم کی جاتی ہے۔ یہ بھی سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہماری پولیس میں امن و امان کو یقینی بنانے اور معاشرہ میں شرپسندی و فرقہ واریت کا زہر گھولنے والوں سے نمٹنے کی ہمت نہیں ہے؟ ایک بات ببانگ دہل کہی جاسکتی ہے کہ اگر حکومتیں اور پولیس چاہیں تو فرقہ وارانہ فسادات برپا نہیں ہوسکتے۔ موجودہ صورتحال میں حکومتوں حکمرانوں اور نفاذ قانون کی ایجنسیوں بالخصوص محکمہ پولیس اور انصاف و قانون کے اداروں کو اپنا محاسبہ کرنا ضروری ہے۔

ہمارے ملک میں اگر پولیس حقیقت میں پولیس بن جائے اور پوری دیانت دار و سچائی کے ساتھ فرائض انجام دینے لگے تو فرقہ وارانہ نوعیت کا ایک واقعہ بھی پیش نہیں آئے گا۔ حال ہی میں اس وقت سارے ملک کا سرشرم سے جھک گیا جب مدھیہ پردیش کے علاقہ بیتول میں پولیس نے فرقہ پرستی کا بدترین مظاہرہ کرتے ہوئے ایک وکیل کو شدید زدوکوب کیا۔ پہلے ہی سے شوگر اور بلڈپریشر کے امراض میں مبتلا وکیل کو اس واقعہ نے یہ سوچنے پر مجبور کردیا کہ آخر فرقہ پرستوں نے ہندوستان کی حالت اس قدر خراب کردی کہ اب پولیس بھی فرقہ پرستوں کی آلہ کار بن کر ان کے ایجنڈہ پر عمل پیرا ہے۔ دراصل وہ وکیل ہندو ہیں لیکن ان کے چہرے پر داڑھی دیکھ کر مدھیہ پردیش کی بہادر پولیس نے انہیں مسلمان سمجھ لیا اور پھر کیا تھا ایک مسلمان پر پولیس والے ایسے نوٹ پڑے جیسے آوارہ کتنے پھینکی ہوئی ہڈیوں پر ٹوٹ پڑتے ہیں کتوں کی مثال اس لئے دی گئی ہے کیونکہ جو لوگ اپنے فرائض کی انجام دہی میں کوتاہی برتتے ہیں اور تعصب و جانبداری کا مظاہرہ کرکے مذہب کی بنیاد پر عوام سے سلوک کرتے ہیں تو انہیں کسی بھی طرح سرکاری عہدہ دار یا اہلکار نہیں کہا جاسکتا بلکہ فرقہ پرست کتوں، فرقہ پرست درندوں انسانیت کے دشمنوں سے تعبیر کیا جاسکتا ہے۔ متاثرہ ایڈوکیٹ دیپک کا کہنا ہے کہ جب انہوں نے اس معاملہ کو صدر جمہوریہ چیف جسٹس آف انڈیا، مدھیہ پردیش ہائی کورٹ اور بار کونسل تک ہپنچایا تو پولیس نے یہ کہتے ہوئے ان سے معذرت خواہی کی کہ بھائی ہم سے غلطی ہوگئی کیونکہ ہم نے آپ کو مسلمان سمجھ لیا تھا۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا مسلمان ہوتو آپ (پولیس والے) اسے اس کی مذہب کی بنیاد پر شدید زدوکوب کریں گے۔ اس کے مذہب اس کی داڑھی اور دستور ہند کو گالی دیں گے؟ اس طرح کے درندوں کو یہ یاد رکھنا چاہئے کہ ظلم زیادہ عرصہ تک باقی نہیں رہ سکتا۔ مظلوم اٹھ کھڑا ہونا ہے تو پھر ظالم کی لنکا جل کر راکھ ہوجاتی ہے۔ بڑے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ پولیس والوں میں بھی اگر فرقہ پرستی کا زہر سرائیت کر جائے تو ملک میں تباہی و بربادی کے سواء کچھ نہیں ہوسکتا۔ ان پولیس والوں کو اسکاٹ لینڈ یارڈ، اٹلانٹا پولیس ڈپارٹمنٹ ورلڈ پولیس اکیڈیمی کینیڈا یہاں تک اسرائیلی سیکوریٹی ایجنٹس کے ذریعہ تربیت دلانے کا کوئی فائدہ نہیں ہے بلکہ انہیں تو سب سے پہلے انسانیت کا درس دینا چائے انہیں یہ بتایا جانا چاہئے کہ انسانیت کیا ہوتی ہے انسان کا درجہ اس کے جذبات اور احساسات کیا ہوتے ہیں اور جس انسان کو ظلم کا نشانہ بنایا جاتا ہے اس کی حالت کیا ہو جاتی ہے۔ اگر ہم ہمارے ملک میں پولیس والوں کی روش کا جائزہ لیں گے تو پتہ چلے گا کہ محکمہ پولیس میں اصلاحات کی شدید ضرورت ہے۔ مشرقی دہلی میں ہوئے فسادات جس میں 53 جانیں گئیں تھی ان میں مسلمانوں کی اکثریت تھی۔ اس کے خاطیوں کو گرفتار کرنے کی بجائے مسلمانوں کو گرفتار کرتی ہے۔

جامعہ ملیہ کی حاملہ طالبہ صفورہ زرگر میراں حیدر اور آصف اقبال تنہا کو گرفتار کرکے تہاڑ جیل پہنچا دیتی ہے اور ان تمام پر دہلی فسادات کی سازش رچنے کا الزام عائد کردیتی ہے۔ کیا دہلی پولیس کو اندازہ نہیں کہ اس کے سیاہ کرتوتوں کا ساری دنیا کو اندازہ ہے اور وہ کس کے اشارے پر کام کررہی ہے۔ ہمارے لئے شرم کی بات یہ ہے کہ وہ لوگ بھی لباس سے پہچاننے کا مشورہ دیتے ہیں جو ملک کے جلیل القدر عہدہ پر فائز ہیں۔ اگر یہ لوگ گلی کے چلر لیڈروں کی طرح باتیں کرنے لگیں تو پولیس والوں سے اچھائی کی امید کیسے کی جاسکتی ہے۔ ہندوستان میں 2011 کی مردم شماری کے مطابق 14.2 فیصد مسلم آبادی ہے۔ دلتوں کی آبادی 16.6 اور قبائیلیوں کی آبادی 8.6 فیصد ہے۔ ان حالات میں پولیس میں آبادی کے تناسب سے تمام مذآہب کے ماننے والوں کو نمائندگی دی جانی چاہئے ورنہ فرقہ پرست درندے پولیس جیسے ذمہ دار محکمہ میں داخل ہوکر نا صرف انسانوں کا بلکہ انصاف کا قتل کردیں گے۔ آج ہمارے محکمہ پولیس میں ہنمت کرکرے جیسے جانباز دیانتدار حق گو عہدہ داروں کی ضرورت ہے۔ ان عہدہ داروں کی نہیں جو چند سکوں کے لئے اپنی ہرچیز کا سودا کردیتے ہیں۔
mriyaz2002@yahoo.com