مسلمانوں کے بائیکاٹ و قتل کی دھمکیاں

   

کی میرے قتل کے بعد اس نے جفا سے توبہ
ہائے اس زود پشیماں کا پشیماں ہونا

دہلی میں بی جے پی کے ایک رکن پارلیمنٹ اور اترپردیش سے تعلق رکھنے والے بی جے پی کے ایک رکن اسمبلی اور دوسروں نے ایک بار پھر اپنی بے لگام زبان کو مسلمانوں کے خلاف استعمال کرتے ہوئے ملک میں نفرت کے ماحول کو بھڑکانے کی کوشش کی ہے ۔ بی جے پی کے ایک ذمہ دار رکن پارلیمنٹ پرویش شرما نے دہلی میں عوام سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ مسلمانوں کا سماجی اور معاشی بائیکاٹ کیا جانا چاہئے ۔ ان کامکمل بائیکاٹ کیا جانا چاہئے ۔ ان سے کوئی شئے خریدی نہیں جانی چاہئے اور نہ ہی انہیں کوئی تنخواہیںادا کی جانی چاہئیں۔ اترپردیش میں لونی کے بی جے پی رکن اسمبلی نے مزید ایک قدم آگے بڑھتے ہوئے مسلمانوں کے قتل کی دھمکیاں بھی دی ہیں اور کہا کہ جس طرح سی اے اے ۔ این آر سی کے خلاف احتجاج کے دوران مسلمانوں کو ہلاک کیا گیا تھا اسی طرح اب بھی ہلاک کیا جائیگا ۔ حقیقت یہ ہے کہ دہلی میں ہی ملک کی تمام بڑی اور مرکزی تحقیقاتی ایجنسیوں کے دفاتر موجود ہیں۔ دہلی ہی میں ان کے اعلی عہدیدار رہتے ہیں۔ یہ ویڈیوز اور خبریں سوشیل میڈیا پر وائرل بھی ہوگئی ہیں۔ اس کے باوجود ان تحقیقاتی اداروں اور عہدیداروںکے کان پر جوں تک نہیںرینگتی اور ان کے خلاف نہ کوئی کارروائی کی جاتی ہے ۔ نہ ایف آئی آر کیا جاتا ہے ۔ نہ انہیں گرفتار کیا جاتا ہے اور نہ ان کے خلاف کوئی نوٹس جاری کرکے انہیں پوچھ تاچھ کیلئے طلب کیا جاتا ہے ۔ بی جے پی کے وہ قائدین جو رات 9 بجتے ہی پالتو اینکروں کے ٹی وی چینلوں پر بیٹھ کر مسلمانوں کے خلاف اشتعال انگیز بیانات دیتے ہیں وہ بھی اس مسئلہ پر کوئی لب کشائی کرنے کو تیار نہیں ہیں اور نہ ہی اس طرح کے بیانات کی مذمت کی جاتی ہے ۔ گودی میڈیا کے پالتو اینکرس بھی ان مسائل پر کوئی مباحث کرتے ہوئے ایسی اشتعال انگیزیاں کرنے والوں سے کوئی سوال پوچھنے کی جراء ت نہیں کرسکتے۔ وہ بھی صرف مسلمانوں کو نشانہ بنانے کی اور انہیںرسواء کرنے کی مہم چلانے میںمصروف ہیں اور اسی کو اپنا فرض سمجھے ہوئے ہیں۔ وہ اپنے سیاسی آقاوں کی خوشامد کو ہی اپنی ذمہ داری سمجھے ہوئے ہیں۔
جس طرح کے انتہائی اشتعال انگیز بیانات دئے گئے ہیں اور جس طرح کی دھمکیاں کھلے عام دی گئی ہیں انکے ویڈیوز سوشیل میڈیا پر موجود ہیں۔ اس کے باوجود تحقیقاتی ایجنسیاں خاموشی اختیار کی ہوئی ہیں۔ ان کے خلاف کسی طرح کی کارروائی نہیں کی جا رہی ہے ۔ اس سے خود تحقیقاتی ایجنسیوں کی کارروائیاں مشکوک ہوتی جا رہی ہیں۔ محض حکومت اور برسر اقتدار جماعت کے سیاسی مخالفین کو نشانہ بنانے تک خود کو محدود کرچکی ہیں۔ ان کے عہدیدار بھی اپنے فرائض منصبی سے پہلوتہی کرنے ہی میں عافیت سمجھ رہے ہیں۔ وہ اپنے پیشہ ورانہ فرائض کو فراموش کرتے ہوئے اپنے عہدوں پر براجمان رہنے کا جواز کھوچکے ہیں۔ جو عہدیدار اور ایجنسیاں اپنے فرائض سے پہلو تہی کر رہی ہیں خود ان کے خلاف تحقیقات ہونی چاہئیں۔ کیوں یہ لوگ ملک کے ماحول کو پراگندہ کرنے سے گریز کررہے ہیںاس کا جواب طلب کیا جانا چاہئے ۔ کیوں اشتعال انگیزی پر کوئی کارروائی نہیں کی جاتی اور کیوں محض مخصوص سیاسی نظریہ اور سوچ رکھنے والوں ہی کو نشانہ بنایا جاتا ہے ۔ کیا مسلمان اس ملک کا شہری نہیںہے ؟ ۔ کیا کسی کو بھی مسلمانوں کے خلاف زہر افشانی کرنے اور اشتعال انگیز بیانات دینے اور دھمکیاں جاری کرنے کا کھلا اختیار دیدیا گیا ہے ۔ کیا ملک کے قانون اور دستور کے خلاف اس طرح کی بیان بازی کرنے والوں کے خلاف قانونی کارروائی نہیںہونی چاہئے ؟ ۔ یہ ایسے سوال ہے جن پر ملک کے تمام ذمہ دار اور صحیح الفکر شہریوں کو سوچنے کی ضرورت ہے ۔
پرویش ورمای کا جہاں تک تعلق ہے تو یہ پہلی مرتبہ نہیں ہے کہ وہ اس طرح کی بیان بازی کر رہے ہیں۔ یہ پہلی مرتبہ نہیں ہے کہ انہوں نے مسلمانوں کے خلاف زہر اگلا ہے ۔ وہ عادی ہوچکے ہیںاس طرح کے بیانات دینے کے ۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ وہ خود کو ملک کے دستور اور قانون سے بالاتر سمجھنے لگے ہیں کیونکہ ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہو رہی ہے ۔ تحقیقاتی ایجنسیوں کو اور اس کے ذمہ دار عہدیداروں کو اپنی پیشہ ورانہ دیانت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ملک کے ماحول کو پراگندہ کرنے کی کوشش کرنے والوں کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کرنے کی ضرورت ہے ۔ تبھی خود ایجنسیوں کے تعلق سے شبہات دور ہوسکتے ہیں۔