مسلمان کا خون ، مال اور عزت حرمت والی چیز

   

… گزشتہ سے پیوستہ …
اگر تند و تیز ہوائیں ساری زمین کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیں، تب بھی اﷲ کے مقبول بندوں کا چراغ بجھتا نہیں ، روشن رہتا ہے ۔ ان پر دھول اُڑانے والے فنا ہوجاتے ہیں ، بعد میں انھیں کوئی پوچھتا تک نہیں، لیکن مقبولانِ بارگاہِ رب العزت کا پرچم لہراتا رہتا ہے ۔ حضرت ابراہیمؑ اور حضرت اسمعٰیلؑ انہیں مقبولان ِ بارگاہ رب العزت کے امام ہیں ۔
پھر اس قربانی کے عمل کو اﷲ تعالیٰ نے جو شرف قبول بخشا وہ اظہرمن الشمّس ہے ۔ صحابہ کرام نے رسول اکرم ﷺ سے پوچھا کہ یا رسول اﷲ ! ہمارے لئے اس قربانی کے عمل میں کیا اجر ہے ؟
آپﷺ نے فرمایا : قربانی کے جانور کے ہر ہر بال کے عوض ایک ایک نیکی ہے ۔
صحابہؓ نے پھر عرض کیا : تو کیا یا رسول اﷲ ! اُن جانوروں کا معاملہ بھی یہی ہے جن پر بال نہیں ہوتے بلکہ اُون ہوتا ہے ؟
آپ ﷺ نے فرمایا : ’’ہاں ‘‘ یعنی اُون والے جانوروں کی قربانی کا اجر بھی اسی شرح اور اسی حساب سے ملے گا کہ ان کے ہر رویں کے عوض ایک نیکی ۔ پھر اس قربانی کی قبولیت کو اتنا یقینی بنادیا گیا کہ ذبیحہ کا خون زمین پر گرنے سے پہلے قربانی بارگاہ خداوندی میں قبول فرمالی جاتی ہے ۔ اس عظیم اجر و ثواب کی وجہ سے حضور اکرم ﷺ فداہ ابی و امی ہمیشہ دو جانور ذبح فرماتے تھے ۔ ایک اپنی طرف سے اور ایک اُمت مسلمہ کی طرف سے ۔ذرا سوچو ! اس اُمت میں برائے نام ہی سہی ہم نالائق و ناہنجار بھی تو شامل ہیں۔ حضور اکرم ﷺ کو ہم گنہہ گاروں کا کتنا خیال تھا اور آپؐ ہم سے کتنی محبت فرماتے تھے کہ ہماری طرف سے بھی قربانی فرماتے رہے ۔ روایت کے الفاظ یہ ہیں : اللھم منک ولک عن محمد وامتہ بسم ﷲ ﷲ اکبر پڑھ کر آپ ﷺ نے مینڈھے کو ذبح فرمایا۔ اور ایک دوسری روایت میں : اللھم ھذا عنی و عمن لم یضحح من امتی ۔ یعنی یہ قربانی میری طرف اور میرے اُن امتیوں کی جانب سے ہے جنھوں نے قربانی نہیں کی ۔ قربانی کے وقت رسول اکرم ﷺ کا یہ عرض کرنا کہ یہ میری طرف سے اور میری اُمت کی طرف سے یا میرے ان اُمتیوں کی طرف سے جنھوں نے قربانی نہیں کی ۔ بِالْمُؤْمِنِيْنَ رَءُوْفٌ رَّحِيْـمٌکا مرقع راَفت و رحمت ہے ۔ حضور اکرم ﷺ تو ہمارا اس قدر خیال فرماتے تھے اور آج ہم اپنے گریباں میں منہ ڈال کر دیکھیں کہ ہم حضور اکرم ﷺ کا ، حضور ﷺ کے احکام کا ، حضور ﷺ کی سنتوں کا ، حضور ﷺ کے لائے ہوئے دین کا کتنا خیال کررہے ہیں ؟ تو دونوں میں کوئی نسبت نظر نہیں آتی ۔
قربانی کے اس واقعہ کے بعد جب حضرت اسمعٰیل ؑعہد شباب کو پہنچ گئے اور اﷲ تعالیٰ نے انھیں بھی نبوت سے سرفراز فرمادیا ۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا پیغام توحید بھی رنگ لایا ۔ دعوت توحید عام ہوگئی تو اب اس دعوت کو مرکز کی ضرورت تھی ۔ اُمت مسلمہ کی بنیاد پڑچکی تھی ۔ بیت اﷲ کی تعمیر شروع ہوتی ہے ۔ دونوں باپ بیٹے اس کے معمار ہیں پتھر ڈھوے جارہے ہیں ،دیواریں کھڑی کی جارہی ہیں، ابتدائی عمارت تو بہت معمولی سی تھی لیکن مقام و مرتبہ میں اس کو دنیا کی ہرچیز پر فضیلت دی گئی جو عزت و تکریم اس عمارت کو وہ کسی اور چیز کو نصیب نہ ہوسکی ۔ ہزاروں برس سے لاکھوں ، کروڑوں اور اربوں انسان اس کا طواف کرتے اس پر تصدق ہوتے چلے آرہے ہیں لیکن رسول اکرم ﷺ نے خانۂ کعبہ کی اس عظمت کو دوسرے نمبر پر کردیا اور اولیت کسی او رچیز کو دے دی ۔ حضرت عبداﷲ بن مسعودؓ فرماتے ہیں کہ رسول اکرم ﷺ نے خانۂ کعبہ کو مخاطب کرکے فرمایا : اے کعبہ تو کتنی عظمت والا ہے ! تو کتنی عزت والا ہے ! کیا رتبہ ہے تیرا ! کیا شان ہے تیری ! لیکن اے کعبہ ! تین چیزیں تجھ سے بھی زیادہ عزت و حرمت والی ہیں ، اور وہ ہیں : ’’مسلمان کا خون ، مسلمان کا مال اور مسلمان کی عزت ‘‘ ۔
لیکن افسوس صد افسوس کہ آج یہی تین چیزیں سب سے زیادہ بے وقعت اور بے حرمت ہوگئی ہیں۔ مسلم کے خون ( جان ) ، مال اور عزت کو آج خود مسلمانوں سے تحفظ حاصل نہیں ۔ مسلمان کا خون خود مسلمان بہارہا ہے ، مسلمان کا مال خود مسلمان لوٹ رہا ہے ، مسلمان کی عزت خود مسلمان پامال کررہا ہے ۔ یہ مسلمان ہیں جنہیں دیکھ کر شرمائیں یہود ۔
اے خاصۂ خاصانِ رُسل وقتِ دعا ہے
اُمت پہ تری آ کے عجب وقت پڑا ہے