مسلمان کسی کے غلام نہیںکے سی آر کو مسلمانوں سے ناانصافی لے ڈوبی

   

متین شریف کانگریس لیڈر

ریاست تلنگانہ میں بالآخر بی آر ایس حکومت کا خاتمہ ہوا اور کانگریس کو حسب توقع کامیابی ملی۔ کے چندر شیکھر راؤ اور ان کی حکومت کی ناکامی اور کانگریس کی کامیابی میں کرناٹک ماڈل یعنی مسلمانوں کی کانگریس کو تائید و حمایت نے اہم کردار ادا کیا۔ جہاں تک کے سی آر کی مسلم دوستی کا سوال ہے کے سی آر کی مسلم دوستی صرف دکھاوا تھی اور وہ مسلمانوں سے صرف اور صرف زبانی ہمدردی کیا کرتے تھے جبکہ ان کی حلیف اسد الدین اویسی کی مجلس نے اقلیتوں کی ترقی و خوشحالی کو یقینی بنانے کی بجائے حکومت کی ہاں میں ہاں ملانے کی روش اختیار کی۔ 8 مساجد شہید کردی گئیں، خاص طور پر سکریٹریٹ کی دو مساجد کو شہید کیا گیا اور ان مساجد کے مقام پر ہی مساجد تعمیر کرنے کی بجائے دوسرے مقامات پر مسجد تعمیر کرکے یہ سمجھا گیا کہ مسلمان بے وقوف ہیں انہیں جس طرح چاہے استعمال کیا جاسکتا ہے لیکن اسمبلی انتخابات میں مسلمانوں نے یہ دکھا دیا کہ ہم کسی کے غلام نہیں ہم اپنی اہمیت اچھی طرح جانتے ہیں اگر ہم بیدار ہو جائیں تو کوئی بھی کسی بھی طرح ہمارا استحصال نہیں کرسکتا، ہمیں اپنا جمہوری و دستوری حق دینے کی بجائے کھلونے دے کر بہلا نہیں سکتا۔ بہرحال ایک یو ٹیوبر، ایک سماجی جہد کار اور ایک سوشل انفلوئنزر اور کانگریس قائد کی حیثیت سے جب میں نے دیکھا کہ کے سی آر زندگی کے ہر شعبہ میں مسلمانوں کے ساتھ ناانصافیوں کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ مجھے بہت تکلیف ہوئی اور میں نے فیصلہ کیا کہ سوشل میڈیا ہمارے لئے نعمت غیر مترقبہ ہے اسے استعمال کرتے ہوئے کے سی آر کی مسلم دشمن کو آشکار کروں اور مسلمانوں کو بتاوں کہ کے سی آر سے مسلمانوں کو کوئی فائدہ نہیں ہوا بلکہ اسد الدین اویسی کو فائدہ ہوا ہے۔ سب سے پہلے مسلمانوں کے انجینئرنگ کالجس (میناریٹی کالجس) بند کئے گئے۔ 2004 سے 2014 جو 56 میناریٹی انجینئرنگ کالجس قائم کئے گئے تھے جیسے ہی 2014 میں کے سی آر کی قیادت میں ٹی آر ایس برسر اقتدار آئی ان میں سے 51 اقلیتی انجینئرنگ کالجس کو بند کردیا گیا حالانکہ کے سی آر نے اقتدار میں آنے سے قبل خاص طور پر علیحدہ تلنگانہ تحریک کے دوران مسلمانوں سے وعدہ کیا تھا کہ وہ مسلم طلباء و طالبات کے لئے تعلیمی نیٹ ورک پھیلادیں گے۔ جیسے ہی کے سی آر نے اقلیتی انجینئرنگ کالجس بند کروائے مسلم طلبہ متاثر ہوئے۔ مجھے احساس ہوا کہ کے سی آر مسلمانوں کے ووٹ تو حاصل کرتے ہیں لیکن وہ مسلمانوں کو معاشی و تعلیمی پسماندگی کی طرف لے جارہے ہیں۔ میں نے کے سی آر حکومت کے خلاف سوشل میڈیا پر مہم شروع کی اور یوٹیوب، فیس بک غرض سوشل میڈیا کے پلیٹ فارمس پر ویڈیوز تیار کرکے اپ لوڈ کرنے لگا۔ اللہ کا شکر ہیکہ میں نے ہر ویڈیو ثبوتوں و دلائل کے ساتھ بنایا اور لوگ اسے پسند کرنے لگے اور قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھنے لگے جس کے نتیجہ میں میرا ہر ویڈیو 12 سے 15 لاکھ لوگ دیکھتے جب اس طرح ویڈیو کا سلسلہ شروع ہوا مسلمانوں کی آنکھیں کھل گئیں اور مختلف اضلاع سے علماء و مشائخین اور دانشوروں سے لے کر عام لوگوں کے کالس آنے شروع ہوئے۔ ان لوگوں کا کہنا تھا کہ ہم نے کے سی آر کو پہچاننے میں غلطی کی۔ ہم سمجھ رہے تھے کہ کے سی آر صاحب رمضان المبارک میں مٹن بریانی کھلاتے ہیں، کرتا پاجامہ کا کپڑا دے رہے ہیں، شادی مبارک اسکیم کے ذریعہ غریب خاندانوں کی مدد کرتے ہیں وہ تو مسلمانوں کے مسیحا ہیں لیکن جب راقم الحروف نے ان کا پول کھولا تب مسلمانوں کو احساس ہوا کہ وہ بی جے پی کے ایک بڑے ایجنٹ کے طور پر کام کررہے ہیں۔ پھر ساری دنیا نے دیکھا کہ تلنگانہ کے مسلمانوں کی سمجھ میں آگیا کہ کے سی آر ان کے دوست نہیں بلکہ ہندوستانی مسلمانوں کے سب سے بڑے دشمن کے دوست ہیں (آج ہندوستان میں فرقہ پرست طاقتیں مسلمانوں کی سب سے بڑی دشمن ہیں)۔
میں نے صرف کے سی آر اور ان کی حکومت کو ہی بے نقاب نہیں کیا بلکہ اپنے ویڈیوز کے ذریعہ اسد الدین اویسی کی حقیقت آشکار کرنے کا سلسلہ بھی شروع کیا۔ اسد اویسی پر بھی میں نے 15 سے 20 ویڈیوز تیار کئے اور ہر ویڈیو کو 10 لاکھ تا 15 لاکھ لوگ دیکھا کرتے تھے۔ میں نے کبھی حقیقت بیانی اور سچائی کا انکشاف کرتے ہوئے خود کو انتقامی کارروائیوں سے متعلق خوف میں مبتلا نہیں رکھا۔ میں پہلے سے تیار تھا کہ ان کے پاس نقصان پہنچانے اور دھمکیاں دینے کے سوا کوئی اور امکان نہیں رہے گا اور اس کے لئے میں پوری طرح تیار تھا۔ جیسے ہی میرے ویڈْوز منظر عام پر آنے شروع ہوئے یہ لوگ مجھے دھمکیاں دینے لگے جس پر ہم نے ایف آئی آر بھی درج کروائے۔ پولیس سے شکایت کروائی چونکہ میرا کوئی مجرمانہ پس منظر نہیں تھا اور میرا کانگریس جیسی ملک کی قدیم ترین سیاسی جماعت سے تعلق ہے اس لئے یہ لوگ مجھے کوئی نقصان نہیں پہنچاسکے ورنہ مخالفین کی زبان بند کرنے میں مجلس کے کردار سے ہر کوئی واقف ہے۔ جہاں تک کے سی آر کا سوال ہے انہوں نے اپنے دور اقتدار میں مسلمانوں سے زبانی ہمدردی کی اور عملی اقدامات سے گریز کرتے رہے۔ اس سلسلہ میں ہم نے دیکھا کہ کانگریس کے دور حکومت میں (متحدہ آندھرا پردیش) میں کم از کم ریاست سے ایک مسلم رکن راجیہ سبھا ہوا کرتا تھا، مگر کے سی آر نے 2014 سے 2023 اپنے تقریباً 10 سالہ اقتدار میں ریڈی، ایس سی، ایس ٹی غرض ہر کمیونٹی کو سیاسی حصہ داری دی مگر مسلمانوں کو اس میں حصہ دار نہیں بنایا۔ میں نے کے سی آر کے ایسے بے شمار کارناموں کی فہرست دلائل کے ساتھ پیش کی اور مسلمانوں کو بتایا کہ ریاستی پبلک سرویس کمیشن میں ایک مسلم نمائندہ ضرور ہوا کرتا تھا لیکن اس میں بھی کے سی آر نے مسلمانوں کی نمائندگی ختم کردی، ریاست کی یونیورسٹیز میں کم از کم ایک مسلم چانسلر ہوا کرتا تھا۔ اس روایت کو بھی کے سی آر نے ختم کردیا۔ مرکز میں جب بی جے پی نے مسلمانوں کے خلاف بلز پیش کئے اس کی راست یا بالواسطہ طور پر کے سی آر کی پارٹی نے تائید و حمایت کی اور افسوس کی بات یہ ہیکہ اسد الدین اویسی اور ان کی پارٹی نے اس پر مجرمانہ خاموشی اختیار کی۔ کے سی آر سے سوال نہیں کیا کہ آخر آپ بلز کی تائید کیوں کررہے ہو۔ میںنے عوام کو پرزور دلائل کے ساتھ یہ بھی بتایا کہ ایم آئی ایم بی جے پی کی بی ٹیم نہیں بلکہ بی جے پی کا اقلیتی ونگ ہے جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اترپردیش میں یوگی، راہول گاندھی، پرینکا گاندھی کو روک دیتے ہیں حالانکہ گاندھی خاندان نے اس ملک کے لئے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔ ملک کو قابل ترین وزرائے اعظم دیئے، یوپی سے جن کا تعلق تھا انہیں داخلے سے روکا جاتا ہے اور اسد الدین اویسی کی حفاظت کے لئے 100 تا 200 پولیس اہلکاروں کی تعیناتی عمل میں لائی جاتی ہے۔ انہیں جلسے منعقد کرنے کی اجازت دی جاتی ہے۔ جہاں تک مختلف ریاستوں میں کانگریس قائدین کی اپنی ہی پارٹی سے بے وفائی باالفاظ دیگر غداری کا سوال اس کی وجہ یہ ہیکہ مرکزی حکومت ان قائدین پر بہت زیادہ دباؤ ڈالتی ہے۔ اگر آپ دیکھیں تو پتہ چلے گا کہ گزشتہ دس برسوں میں مودی حکومت نے سب سے زیادہ کانگریس قائدین کے خلاف سرکاری ایجنسیوں کا استعمال کیا۔ اس معاملہ میں آپ کو بی آر ایس کا ایک لیڈر بھی نظر نہیں آئے گا جس کے خلاف مرکز نے کارروائی کی ہو۔ اس طرح اترپردیش میں اعظم خان کے خلاف 100 سے زائد مقدمات درج کرکے ان کی ان کی اہلیہ اور بیٹے کو بالترتیب پارلیمانی و اسمبلی نشستوںکے لئے نااہل قرار دیا جاتا ہے۔ ان کی زندگیاں اجیرن کردی جاتی ہے۔ اسد اویسی بظاہر مودی اور بی جے پی کے خلاف بہت بولتے ہیں ان کے خلاف کوئی کارروائی آج تک نہیں ہوئی ہے۔ ایسے میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایا کوئی اپنی شخصیت کے خلاف کارروائی کرے گا جو اپنے بیانات کے ذریعہ بی جے پی کو فائدہ اور سیکولر جماعتوں بشمول کانگریس کے ساتھ ساتھ مسلمانوںکو نقصان پہنچا رہی ہے۔ مودی حکومت اہم اپوزیشن قائدین کو بلیک میل کرتی ہے۔ ڈراتی ہے دھمکاتی ہے۔ متھن چکرورتی کی مثال آپ کے سامنے ہے۔ ان کے بیٹے کے خلاف ریپکا مقدمہ درج ہوتا ہے اور بی جے پی میں وہ شامل ہو جاتے ہیں (مجبوراً) اسی طرح ایسے بے شمار کانگریسی قائدین کو بھی ڈرایا دھمکایا بلکہ بلیک میل کیا گیا جنہوں نے یا ان کے ارکان خاندان سے کچھ غلطیاں سرزد ہوتی ہوں۔ مودی حکومت میں ہمارا وطن عزیز بدنام ہوکر رہ گیا جبکہ کانگریس نے یہاں 60 سال حکومت کی جہاں سوئی نہیں بنتی تھی وہاں میزائل بنائے گئے۔ یہ کانگریس کا ہی کارنامہ ہے۔ اسد اویسی بھی مجبور ہیں ان کی مجبوری یہ ہیکہ 2004 سے 2014 تک کانگریس کے ساتھ رہ کر انہوں نے دولت کے جو انبار کھڑے کئے اس دولت کو بچانا ہے۔ اس لئے وہ بالواسطہ طور پر بی جے پی کا ساتھ دے رہے ہیں۔ یہ سارا ہندوستان جانتا ہے کہ ایسے میں یہ ہو رہاہے کہ ان کی دولت تو بچ گئی۔ مگر ہندوستان کے 30 کروڑ مسلمانوں پر ان کے بیانات سے بہت خراب اثر مرتب ہوا ہے۔ ان کی وجہ سے مسلمان بربادی کے دہانے پر پہنچ گئے ہیں۔ اسد اویسی کی پارٹی اگر انصاف کی بات کی جائے تو بوگس ووٹوں سے کامیاب ہوتی ہے جس کی مثال نامپلی اور یاقوت پورہ جیسے حلقے ہمارے سامنے ہیں۔ ایک بات ضرور ہیکہ اگر آج ملک میں بی جے پی، آر ایس ایس کا کوئی مقابلہ کرسکتا ہے تو وہ گاندھی خاندان اور کانگریس ہے۔ امید ہے کہ ریاست تلنگانہ میں ریونت ریڈی مسلمانوں کی بہبود کے لئے حقیقی طور پر عملی اقدامات کریں گے۔( نوٹ: ادارہ کا مضمون نگار کے خیالات سے متفق ہوناضروری نہیں)