مسلم قوم کا مسئلہ || از قلم: مولانا محمد واضح رشید حسنی ندوی رحمۃ اللہ علیہ

   

آج مسلمانوں کا مسئلہ یہ نہیں کہ ان کی زندگی میں اسلام موجود نہیں، یا اسلامی تعلیمات کے مناظر دکھائی نہیں دیتے، یا اسلامی احکامات کوبروئے کار لانے کی کوششیں نہیں ہورہیں، بلکہ حقیقت یہ ہے کہ ان کی زندگی میں اسلام بھی ہے، اسلامی تعلیمات سے ایک گونہ واقفیت بھی ہے،ان کوبروئے کار لانے کی کوششیں بھی ہورہی ہیں، لیکن ان میں ربط ، ترتیب اور تناسب وتوازن موجود نہیں، آج فکرسلیم کے حامل داعیانِ کرام بھی موجود ہیں، عبادات واخلاقی تعلیمات کی بجاآوری کاجذبہ بھی ہے، دعوت الی اللہ کا عمل بھی جاری ہے، فرداورجماعت کے اندرقربانی وجانثاری اورراہ خدا میں جان کی بازی لگادینے کا جذبہ بھی ہے، غرض زندگی کے ہرگوشے میں اسلام اوراسلامی تعلیمات موجود ہیں، لیکن یہ سب کوششیں کسی ایک پہلومیں منحصر ہیں، جس کی وجہ سے دوسرے پہلوجوزیادہ ضروری اور قابل توجہ ہیں ان پر توجہ کم ہوپارہی ہے، ہرشخص اپنے کام میں ایسا مشغول ہے کہ اسے دوسرے پہلوئوں پرتوجہ دینے کا وقت ہی نہیں ملتا، مثلاً اگرکسی کا تعلق تعلیم وتدریس سے ہوتواسے پڑوس میں پھوٹ پڑنے والے فتنہ ارتداد سے کوئی مطلب نہیں، اگرکوئی دعوت وتبلیغ میں مشغول ہے تواسے مسلمانوں کے دوسرے مسائل کی کوئی فکر نہیں، اوراگرخدمت خلق میں مشغول یاریلیف کمیٹیوں کا رکن ہے یا اصلاح معاشرہ کا کام کررہا ہے تواس کی توجہ اصلاح نفس وتزکیہ اخلاق کی طرف نہیں، یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں کے بے شمار مسائل اور انفرادی واجتماعی امورکی طرف نظر نہیں جارہی ہے، اس لیے کہ ان پر توجہ نہیں دی جارہی ہے۔اس کا یہ مطلب بالکل نہیں کہ یہ تمام کوششیں غیرمفید وبے اثر ہیں، یقینا یہ تمام کوششیں نہایت مبارک اورہمت افزائی کی مستحق ہیں، ان کے اثرات بھی ان شاء اللہ اچھے مرتب ہونگے، لیکن امت اسلامیہ کی ترقی واقبال، اسی وقت ممکن ہے جب ان مختلف انداز سے کام کرنے والوں میں باہمی ربط اور ایک دوسرے کے کام کی قدر ہو، اوراسلام کے تمام پہلوئوں کومکمل شکل میں پیش کیا جائے اورمسلم سوسائٹی کا ہرفرد اسلامی مظاہر اورتمام شعبوں کے احیاء اورترقی دینے میں شریک ہو، تاکہ اسلام کی صحیح تصویر سامنے آئے ، اخلاق وکردار، عبادت وبندگی، خدمت خلق وتعلق مع اللہ، اوردعوت وتبلیغ ، تمام شعبوں میں مطلوبہ وحدت وربط پیدا ہو، اورتمام شعبہائے حیات میں ترقی کا عمل جاری ہو اورہرمسلمان اسلام کا داعی، دین کا محافظ، خطراتِ زمانہ سے باخبر، گردش زمانہ کا نبض شناس،اندیشہائے مستقبل سے واقف وہوشیار اوراپنی منزل ومشن سے آگاہ ہو،اس میں اسلامی تشخص کے احیاء کے طریقہائے کار سے گہری واقفیت اورمشکلات کا صحیح حل پیش کردینے کی صلاحیت ہو‘‘۔