مشکل گھڑی میں عوام کو تنہا چھوڑنے والے حکمراں …

   

تلنگانہ / اے پی ڈائری خیر اللہ بیگ
ریاست تلنگانہ میں کورونا وائرس کے ٹسٹ کروانے کا عمل سست ہے ۔ حکومت کے پاس کوئی وسائل نہیں ہیں ۔ اس لیے وہ صرف لاک ڈاؤن کے سہارے اپنی خامیوں پر پردہ ڈال رہی ہے ۔ لاک ڈاؤن میں اپنے گھروں میں بند عوام میں سے ایسے کتنے انسان ہوں گے جو اپنے اندر کورونا وائرس کے آثار کو لیے بیٹھے ہیں ۔ ریاست کے ہر فرد کا کورونا وائرس ٹسٹ کروایا جانا ممکن نہیں ہے لیکن جتنی زیادہ کوشش کی جائے یہ صحت عامہ کے لیے بہتر ہے ۔ زیادہ سے زیادہ Covid-19 کے ٹسٹ ٹروائے جانے کی ضرورت ہے لیکن اب معلوم ہوتا ہے کہ حکومت کے پاس ٹسٹنگ کیٹس نہیں ہیں اور مالیہ کی کمی کے علاوہ حوصلہ اور عزم کا فقدان ہے اس حکومت کو واحد راستہ لاک ڈاؤن دکھائی دے رہا ہے ۔ کہا جارہا ہے کہ چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ نے مرکز سے سفارش کی ہے کہ اس لاک ڈاؤن میں مزید توسیع کی جائے ۔ ہوسکتا ہے کہ لاک ڈاؤن آئندہ جون تک جاری رکھا جائے گا ۔ لاک ڈاؤن ہی کورونا وائرس کا حل ہے تو پھر اس لاک ڈاؤن سے ہونے والی پریشانیوں کو دور کرنے کا بھی کوئی حل نکالنا چاہئے حکومت کے پاس حل ہی نہیں ہے ۔ اس لیے تلنگانہ ہائی کورٹ نے ٹی آر ایس حکومت کو ہدایت دی کہ وہ ریاست میں Covid-19 کے ٹسٹ کتنے کروائے ہیں ان کی تفصیلات پیش کرے ۔ جب حکومت نے اس مشکل گھڑی میں عوام کو ان کے گھروں میں ہی بند رکھ کر اُٹ پٹانگ کام کرنے شروع کئے ہیں تو عدالت کو آگے آنا پڑتا ہے ۔ وائرس سے بچاؤ کے لیے اور وائرس سے متاثرہ افراد کا پتہ چلانے کے لیے اقدامات ضروری ہیں لیکن کے سی آر کی یہ حکومت دونوں معاملوں میں پیچھے ہے ۔ پولیس کو لاک ڈاؤن پر سختی سے عمل کرنے کی ہدایت دے کر گویا پولیس کو ظلم و زیادتی کرنے کا لائسنس دیدیا گیا ہے ۔ اس لیے یہ پولیس سڑکوں پر ڈنڈے گھوماتے ہوئے ہر کس و ناکس کو نشانہ بنا رہی ہے ۔ سڑکوں پر نکلنے والے وہ غریب لوگ ہوتے ہیں جنہیں اپنے بچوں اور گھر والوں کو روٹی کا بندوبست کرنا ہوتا ہے ۔

غریبوں کی مدد کرنے اور راشن و روپیہ دینے کے اعلانات یا چند افراد کے گھر راشن کٹس بھیجنے سے مسئلہ حل نہیں ہوتا ۔ آج کورونا وائرس کی وجہ سے لوگوں کو گھروں میں بند رکھا گیا لیکن ان بند گھروں کے اندر فاقہ کشی کا طوفان برپا ہے ۔ ماہ رمضان المبارک میں ایسے بند گھروں کے اندر رہنے والے کتنے افراد نے سحری کا انتظام کیا ہے یہ کس کو احساس ہے ۔ دنیا کو اس خطرناک بلکہ وحشت ناک بیماری سے چھٹکارا دلانے کی کوششوں کا تو کوئی ذکر نہیں ہے لیکن ہر روز ہونے والی ہزاروں اموات کا سلسلہ جاری ہے ۔ اب آئندہ چند دنوں بعد لاک ڈاؤن کی وجہ کورونا وائرس سے مرنے والے کم بلکہ ہندوستان جیسے غریب ملک میں فاقہ کشی سے مرنے والوں کی خبریں آنی شروع ہوں گی ۔ حیدرآباد کے میرپیٹ میں ہی چار دن قبل ایک خاندان نے معاشی پریشانیوں سے تنگ آکر خود کشی کرلی ۔ یہ واقعہ چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ اور ان کے کابینی ارکان کے بالکل ناک کے نیچے پیش آیا ہے ۔ اس طرح کے واقعات ساری ریاست میں ہونے لگیں گے تو اس کا قصور وار کون ہوگا ؟ کورونا وائرس سے بچنے کا عوام کو وائرس سے بچانے کے لیے سختیاں کرنے والی حکومت کو اس کی فکر ہی نہیں ہوگی اور اس بیماری کے اثرات اور تباہیوں کی فکر بھی عوام کی بڑی اکثریت کو نہیں ہے اس لیے یہ لوگ وائرس کے حملے اور خطرے سے بے نیاز تماشابین بن کر سڑکوں ، گلیوں میں کرکٹ کھیل رہے ہیں ۔ فٹ بال ، کبڈی کھیلی جارہی ہے ۔ ان لوگوں کو غریبوں کی فکر نہیں ہے کیوں کہ ان کے پاس باہر نکلنے اور گھر واپس ہونے کے تمام اسباب ہیں ۔ گھروں میں پیٹ بھر کھانے کے بعد یہ لوگ موج مستی کرنے باہر نکل کر گھومتے ہوئے لاک ڈاؤن کی خلاف ورزی کررہے ہیں ۔ اس پر نظم و نسق کو مزید سختیاں برتنی پڑرہی ہیں ۔ ضرورت مندوں کو ان سختیوں کا شکار ہونا پڑرہا ہے ۔ تلنگانہ اور ملک کے مختلف حصوں میں لاک ڈاؤن کے دوران پولیس کی زیادتیوں کے ہولناک ویڈیوز بھی وائرل ہورہے ہیں ۔ حیدرآباد میں میر چوک پولیس اسٹیشن حدود میں ایک غریب آٹو ڈرائیور کے ساتھ پولیس کی زیادتی کے بعد اس غریب آٹو ڈرائیور کو شدید برہم ہو کر خود اپنے آٹو کو توڑ پھوڑ کرتے دیکھا گیا ۔ یہ غریب اپنے بچوں کے لیے ایک وقت کا کھانے کا انتظام کرنے گھر سے نکلا تھا ۔ چھوٹے گیس سیلنڈر میں گیاس بھرا کر واپس جانا چاہتا تھا لیکن پولیس کی مار پیٹ اور گرفتار کر کے پولیس اسٹیشن لے جانے کی وجہ ایسے واقعات دل ہلا دیتے ہیں ۔

پولیس نے لاک ڈاؤن پر سخت عمل کرنے کے لیے اب تک لاکھوں موٹر گاڑیوں ، آٹوز کو ضبط کرلیا ہے ۔ اس کے باوجود عوام سڑکوں پر نکل کر دوسرے ضرورت مندوں کو بھی پریشان کررہے ہیں ۔ یہ وقت بہت بُرا وقت ہے ۔ بڑی ہوشیاری ، بڑی دانائی ، بڑے صبر و تحمل کی ضرورت ہے ۔ عوام کو اپنے ارد گرد دیکھنے کی ضرورت ہے ۔ بڑے پاش محلوں میں مکمل عیش و آرام والے علاقوں میں آئیسولیشن کرنے والے علاقوں میں کورونا کے خطرے سے محفوظ بڑے بڑے گھروں میں رہنے والوں کا کورونا کچھ نہیں بگاڑ سکتا ۔ اصل مسئلہ ورکنگ کلاس ، میڈل کلاس جو اپنی محنت اور اپنی جفا کشی سے رنگ و نور بکھیرتی ہے وہ آج خوار ہے ، بھوکی ہے کیوں کہ لاک ڈاؤن نے زندگی کو قید خانے میں بدل دیا ہے ۔ قید خانے کے نام سے انسان بہت گھبراتا ہے لیکن حالات کی سنگینیاں دیکھیے کہ ہر ملک اور ہر ریاست اور ہر شہر و گاؤں میں رہنے والے خاندانوں کو آج ایک قید کی زندگی گذارنی پڑرہی ہے ۔ اس وائرس نے مسلمانوں کو ان کی مساجد سے دور کردیا ہے ۔ رمضان کی برکتوں اور عبادتوں سے محروم کرنے کی کوشش کی ہے ۔ مساجد میں تراویح کے اہتمام پر روک لگادی ہے ۔ یہ وائرس اس قدر خوف پیدا کرچکا ہے کہ جو لوگ سال میں ایک بار مسجدوں کا رخ کرتے ہوئے رمضان کی عبادتوں میں مصروف رہتے تھے ۔ تراویح بھی ادا کرتے ، قرآن مجید سنتے تھے اور اعتکاف کا بھی اہتمام کرتے تھے اب یہ لوگ بھی سال میں ایک بار کے اس موقع سے محروم ہوچکے ہیں ۔ گھروں ہی میں اپنی سالانہ عبادتوں کو پورا کریں گے ۔ نمازوں کے پابند اور روزہ و عبادتوں اور ذکر و اذکار کے ہر وقت پابند رہ کر مساجد کو جانے والے عبادت گذاروں کو بھی بند گھروں تک ہی محدود کردیا گیا ہے ۔ 50 سال یا اس سے زیادہ عمر کے لوگ کورونا وائرس کا آسان شکار ہونے کے خوف کے بعد ہی لوگ گھروں میں بند ہورہے ہیں ۔ عموماً اس عمر کو پہونچنے کے بعد ہی خدا کو زیادہ یاد کرنے والے بھی پریشان ہیں ۔ حیدرآباد کے علمائے کرام نے کہہ دیا ہے کہ تمام مسلمانوں کو رمضان المبارک میں اپنے گھروں میں ہی عبادت کریں اور زکواۃ غریبوں ، مستحق کو ابھی سے ادا کریں تاکہ یہ غریب مسلمان سارا ماہ رمضان سکون سے بے فکر ہو کر عبادتیں کرسکیں ۔ حکومت نے تو صرف لاک ڈاؤن کے نفاذ کا آسان طریقہ اختیار کر کے تمام عوام کو تنہا چھوڑ دیا ہے تو اب سماجی طور پر ہی عوام کو ایک دوسرے کا خیال رکھنے کی ضرورت ہے ۔ مسلمانوں کو اپنے محلوں میں غریب افراد کا خاص خیال رکھنے کی ضرورت ہے ۔ باقی اللہ پر چھوڑ دیا جائے ۔