مصنوعی ذہانت کے ساتھ کی جانے والی حکمرانی

   

تلنگانہ / اے پی ڈائری خیر اللہ بیگ
مصنوعی ذہانت سے حکومت کرنے والا لیڈر مسائل کا انبار لگا دیتاہے ۔ تلنگانہ میں آر ٹی سی ملازمین کے ساتھ حکومت کا برتاؤ دیگر سرکاری ملازمین کے لیے بڑا خطرہ ثابت ہوسکتی ہے ۔ آر ٹی سی ملازمین کی درگت دیکھ کر تلنگانہ کے دیگر شعبوں کے ملازمین اپنے ہزاروں مسائل کے باوجود بلبلا کر رہ گئے ہیں ۔ سیاسی سطح پر تو اس بات کا اندازہ لگانا تھوڑا مشکل ہے کہ ٹی ایس آر ٹی سی ملازمین کے مستقبل کا سیاسی اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا ۔ ہڑتال کیلئے اکسانے والی اپوزیشن پارٹیاں اب ان بے چارے ملازمین کو یکا و تنہا کر کے الگ ہوچکی ہیں ۔ آر ٹی سی ملازمین کو ہڑتال کے لیے اکسانے والی پارٹیوں میں بی جے پی کا نام سرفہرست لیا جارہا ہے ۔ چیف منسٹر کے دربار میں اس قدر راج ہٹ پایا جاتا ہے کہ اس دربار کے باہر کے شور و غل کو ہرگز برداشت نہیں کیا جارہا ہے ۔ بی جے پی کی تلنگانہ قیادت نے اپنے آقاؤں کی مصنوعی ذہانت کے حوالے سے ہی آر ٹی سی ملازمین کی ہڑتال کو طول دینے میں مدد کی نتیجہ کچھ نہیں نکلا تو اب بی جے پی کی مرکزی قیادت ریاستی صدر کو تبدیل کر کے نئے لیڈر کا انتخاب کرنا چاہتی ہے ۔ مگر بی جے پی تلنگانہ یونٹ کے لیے کوئی ایسا دم دار لیڈر نہیں مل رہا ہے جو ریاست کی ٹی آر ایس حکومت کے خلاف بی جے پی کو مضبوط بنا سکے ۔ تلنگانہ کی سیاست کو خاردار سمجھنے والے بی جے پی کے ریاستی قائدین اس لیے پریشان ہیں کہ ان کی پارٹی کے لیے کوئی موزوں لیڈر نہیں مل رہا ہے ۔ موجودہ صدر لکشمن کی میعاد ختم ہورہی ہے ۔ سابق صدر کشن ریڈی مرکزی مملکتی وزیر داخلہ ہوگئے ہیں انہوں نے دوبارہ یہ عہدہ حاصل کرنے سے انکار کردیا ہے ۔ دسمبر کے اختتام تک کے لکشمن کی میعاد پوری ہوجائے گی ۔ پارٹی لیڈروں نے بی جے پی کے ریاستی امور کے انچارج کرشنا داس سے اپیل کی ہے کہ وہ بی جے پی کے سینئر لیڈر کو پارٹی کے ریاستی یونٹ کا صدر مقرر کریں ۔ جس کے بعد داس نے پارٹی قائدین ڈی کے ارونا اور جتندر ریڈی سے بات چیت کی۔ پارٹی کو ایک ایسے لیڈر کی ضرورت ہے جو حال ہی میں دوسری پارٹیوں سے منحرف ہو کر بی جے پی میں شامل ہونے والوں اور پارٹی کے سینئیر قائدین کے درمیان متوازن ربط رکھنے میں کامیاب ہوجائے ۔ پارٹی کے اعلیٰ عہدہ کے لیے جن قائدین کے نام زیر گشت آرہے ہیں ان میں رامچندر ریڈی ، رگھونندن راؤ ، ڈی کے ارونا قابل ذکر ہیں ۔ کریمنگر کے بی جے پی ایم پی بنڈی سنجے کے نام پر بھی غور کیا جاچکا ہے ۔ لیکن کانگریس اور ٹی آر ایس کے مقابل بی جے پی کو ایک مضبوط طاقتور لیڈر کی تلاش ہے ۔ اس طرح کانگریس کو بھی تلنگانہ کے لیے نئے لیڈر کا انتظار ہے ۔ یہ دونوں قومی پارٹیاں ایک علاقائی پارٹی ٹی آر ایس کی طاقت سے اس قدر پریشان ہیں کہ اپنی ساکھ کو مضبوط بنانے کے لیے ساری توانائی جھونک رہے ہیں ۔ اے آئی سی سی انچارج برائے تلنگانہ آر سی کنٹیا کو تبدیل کردیا جائے گا ۔ ان کی جگہ مہاراشٹرا کے سابق چیف منسٹر پرتھوی راج چوہان کو مقرر کیا جائے گا ۔ تلنگانہ کے لیے اے آئی سی سی انچارج کا بھی با اثر ہونا لازمی ہے تاکہ تلنگانہ جیسی ریاست کے لیے اپنی ذمہ داریوں کو پوری مشقت کے ساتھ بروے کار لاسکے ۔ صدر پردیش کانگریس کی حیثیت سے اتم کمار ریڈی کو ہٹا کر سینئیر لیڈر کو نامزد کرنے پر توجہ دینا شروع کردیا گیا ہے ۔ اتم کمار ریڈی کے خلاف کانگریس ہائی کمان کے پاس کئی شکایات پہونچ چکی ہیں کہ وہ ٹی آر ایس حکومت کے سامنے کمزور پڑتے جارہے ہیں ۔ انہوں نے کانگریس کے 12 ارکان اسمبلی کے انحراف کو روکنے میں کامیاب کوشش نہیں کی ۔ کانگریس کے کئی قائدین چاہتے ہیں کہ آر سی کنٹیا اور اتم کمار ریڈی کو ہٹادیا جانا چاہئے کیوں کہ ان کی قیادت میں تلنگانہ کے اندر کانگریس کا بھاری نقصان ہوچکا ہے ۔ اب مزید نقصان کا مطلب پارٹی کا صفایا ہوگا ۔ تلنگانہ کانگریس کی اس ذہنی بے بسی اور آگے دیکھنے کے راستے میں رکاوٹوں اور دیوار سے سر ٹکراتے ہوئے یہ قائدین اپنی بقاء کے لیے بے بنیاد سیاسی ایجنڈے پر کام کرنا چاہتے ہیں جب کہ کانگریس کی مرکزی قیادت ہی ریاستی سطح پر پارٹی کو مضبوط بنانے سے بے بس نظر آرہی ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ جو کچھ ہورہا ہے وہ ٹھیک ہے ۔ کانگریس کو جلد سے جلد اپنے مصنوعی ذہانت کو تجرباتی ذہانت رکھنے والے قائدین کی خدمات مشوروں اور تجاویز پر غور کرتے ہوئے عمل کرنے کی ضرورت ہے ۔ حاشیہ بردار یا حواریوں کے ناقص مشوروں سے پارٹی کا مزید خسارہ کرنے سے گریز کرنا ہوگا ۔ سیاسی پارٹیوں میں سینئیر قائدین اور جونیر قائدین کے درمیان تجرباتی جنگ کا ہونا عام بات ہے ۔ بعض اوقات پارٹی کا جونیر لیڈر اپنے سینئیرس سے آگے نکل جاتا ہے تو وہ پارٹی ہائی کمان کا نور نظر بن کر اپنے سینئیرس پر رعب جماتا ہے جو سینئیرس کے لیے ناقابل برداشت ہوتا ہے ایسے میں رسہ کشی شروع ہوجاتی ہے اور پارٹی کا نقصان کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ سیاسی پارٹیوں میں سینئیر اور جونیر کا تنازعہ اس وقت پیدا ہوتا ہے جب مرکزی قیادت کی گرفت کمزور پڑ جاتی ہے ۔ ٹی آر ایس کی مرکزی قیادت بھی اب کئی الجھنوں کا شکار ہوگئی ہے ۔ اسی لیے کے ٹی راما راؤ کو کئی ذمہ داریاں ادا کرتے دیکھا جارہا ہے ۔ حال ہی میں ٹی آر ایس سربراہ نے پارٹی کے سینئیر لیڈروں اور سابق ارکان اسمبلی کو ہدایت دی کہ وہ موجودہ ارکان اسمبلی کے تحت کام کریں تو یہ بات کئی قائدین کو ناگوار گذری جس کے بعد سابق ارکان اسمبلی اور نئے ارکان اسمبلی میں جنگ چھڑ چکی ہے ۔ ٹی آر ایس کے قیام سے ہی پارٹی میں رہنے والے سینئیر قائدین کو کانگریس چھوڑ کر ٹی آر ایس میں شامل ہونے والے 12 ارکان اسمبلی سے پریشانی ہے ۔ کانگریس کے منحرف قائدین ٹی آر ایس کے سینئیر قائدین کے لیے درد سر بنے ہوئے ہیں کیوں کہ یہ نو وارد سابق کانگریس قائدین ٹی آر ایس کے سینئیر لیڈروں کا حق چھین رہے ہیں ۔ کانگریس اور ٹی آر ایس کے درمیان یہی کلچرل اختلاف شدت اختیار کرجائے تو بی جے پی کو اپنا موقف مضبوط کرنے کا موقع ملے گا ۔ بہر حال اس وقت تلنگانہ میں کسی بھی سیاسی پارٹی کے اندر کی فضا صحت مندانہ نہیں ہے اس کے باوجود ہر پارٹی میں سیاسی کھوپڑیوں کے مینار بنانے کی کوششیں ہورہی ہیں۔
kbaig92@gmail.com