معاشرہ کی اصلاح، سوامی اگنی ویش کا مشن

   

رام پنیانی
ملک میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور قومی یکجہتی سے متعلق مسائل کے حل اور موضوعات کے ساتھ مصروف رہنے سے قبل میں مزدوروں کی تحریک کو درپیش مسائل سے جڑنے کی کوشش کررہا تھا۔ اس وقت میں اپنے دوستوں سے بندھوا مزدوری کے خلاف تحریک کے تناظر میں سوامی اگنی ویش کا نام اکثر سنا کرتا تھا بعد میں شہادت بابری مسجد کے بعد میں نے فرقہ واریت کے مسائل کو گہرائی میں جا کر سمجھنے کا فیصلہ کیا۔
یہی وہ چیز تھی جس نے مجھے اپنے مرحوم دوست ڈاکٹر اصغر علی انجینئر کے قریب کیا۔ ڈاکٹر اصغر علی انجینئر جب بھی مجھ سے بات چیت کرتے یا کسی مسئلہ پر تبادلہ خیال ہوتا تو وہ ضرور سوامی اگنی ویش اور ان کے مختلف کاموں کا حوالہ دیتے۔ یہیں سے میں نے سوامی جی کے بارے میں معلومات حاصل کیں۔ ہاں ان کو پہچانا، انہوں نے بھی مجھے ایک ٹاک شو میں مدعو کیا اور میں ان کے اپنے گھر میں مہمان نوازی سے بھی محظوظ ہوا۔ ایک اور ایسا موقع تھا جب میرے ایک اور ہر دل عزیز دوست ہرش مندر نے اسٹریٹ چلڈرن پر ایک لکچر کا اہتمام کیا، جبکہ ایک فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے موضوع پر لکچر سوامی جی کے آشرم میں منعقد کیا گیا۔

1990 کے دہے سے مجھے سوامی جی سے مختلف موقعوں پر فون پر یا پھر شخصی طور پر بات چیت کرنے کا اعزاز حاصل رہا اور میں ان کی شرافت، خلوص اور پیار بھری فطرت سے بہت متاثر ہوا۔ میں نے یہ بھی دیکھا کہ وہ فرقہ پرست طاقتوں کے خلاف سیسہ پلائی دیوار کی طرح ڈٹ جایا کرتے تھے اور زندگی بھر انہوں نے فرقہ پرست طاقتوں کی مخالفت کی، وہ ہمیشہ سچائی کی راہ پر گامزن رہے اور کبھی بھی اپنے اصولوں سے سمجھوتہ نہیں کیا۔ نامساعد حالات میں بھی وہ اپنے اصولوں کو سینے سے لگائے رکھے۔ یہی وجہ تھی کہ ہندو قوم پرست سیاست کے حامیوں نے ان پر حملہ کیا۔ یہ فرقہ پرست سوامی جی کی جانب سے بعض مسائل پر اختیار کردہ سخت موقف سے کافی پریشان تھے۔ انہیں سوامی جی کے فیصلے پسند نہیں تھے مثال کے طور پر انہوں نے بت پرستی یا مورتی پوجا کی شدت سے مخالفت کی یہاں تک کہ سوامی نے سیاسی مقاصد کی تکمیل کے لئے ہندو شناخت کے استعمال کی مخالفت کو اپنا مشن بنایا۔ میں یہاں ان کے بارے میں اپنے کچھ ایسے تاثرات اور تجربات پیش کررہا ہوں جس نے مجھے کافی متاثر کیا اور میں ان کے احترام کے لئے مجبور ہوگیا۔ خاص طور پر ستی کی رسم ختم کرنے کے لئے وہ پابند عہد تھے اور اپنے موقف پر سختی سے قائم رہنے کے معاملہ میں وہ بہت آگے تھے۔ عالمی سطح پر بھی انہوں نے بندھوا مزدوری کے خلاف مہم چلائی اور اس کے یادگار نقوش چھوڑے۔

جہاں تک ہندو قوم پرست سیاست کا تعلق ہے سوامی جی کو بڑے پیمانے پر ان کے غیض و غضب کا سامنا کرنا پڑا۔ اپنے اس مضمون میں میں نے اس طرح کے چند واقعات پر روشنی ڈالی ہے۔ 17 اگست 2018 کو سابق وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی کے ارتھی جلوس کے دوران سوامی اگنی ویش کو بی جے پی کے صدر دفتر کے باہر مارا پیٹا گیا، جب وہ ارتھی کے جلوس میں شامل ہونے کی کوشش کررہے تھے۔ حملہ آور کوئی اور نہیں تھے بلکہ ہجوم میں شامل تھے جنہوں نے پہلے سوامی جی کے ساتھ دھکم پیل کی اور پھر ان پر حملہ کردیا۔ وہ لوگ بھارت ماتا کی جئے اور دیش دھروہی واپس جاو کے نعرے لگا رہے تھے۔ ان کے خلاف قوم دشمن کا نعرہ بی جے پی حامی ایسے لگا رہے تھے جیسے وہ خود قوم پرست اور اگنی ویش ملک دشمن ہوں، حالانکہ معاملہ بالکل الٹا تھا۔ اس حملہ کی وجہ یہ تھی کہ سوامی اگنی ویش نے دور قدیم میں ہندوستان کی شان و شوکت سے متعلق وزیر اعظم نریندر مودی کے بیانات کو لے کر زبردست تنقید کی تھی۔ اس واقعہ سے ایک ماہ قبل جھارکھنڈ کے پوکور علاقہ میں سوامی اگنی ویش کو بہیمانہ انداز میں مبینہ طور پر بی جے پی کے طلبہ ونگ کے ارکان نے زدوکوب کیا۔ یہ حملہ بہت سنگین تھا لیکن راحت کی بات یہ رہی کہ اس حملہ میں ان کی زندگی بچ گئی جبکہ ان کی تربن اچھالی گئی اور کپڑے پھاڑ دیئے گئے۔ سوامی اگنی ویش پر اس حملہ کی مذمت کرنے کی بجائے بی جے پی کے حامیوں نے اس حملہ کو منصفانہ قرار دیا اور سوامی جی کی تقریر کا ویڈیو گشت کروایا جس میں وہ وزیر اعظم نریندر مودی پر ان کے اس بیان کے لئے شدید تنقید کررہے تھے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ ہندوستان میں پلاسٹک سرجری زمانہ قدیم میں ہی شروع ہوگئی تھی۔ جب اسٹم سیل ٹکنالوجی کے ذریعہ پیدا ہوئے ایک لڑکے کی گردن سے ہاتھی کا سر جوڑ دیا گیا تھا۔ سوامی اگنی ویش نے مودی کے اس طرح کے بیانات کو مضحکہ خیز قرار دیا تھا اور ان کی ہمت کی داد دینی چاہئے کہ لاکھ مخالفت کے باوجود اگنی ویش نے نیپال اور ڈھاکہ میں سرکاری دورہ کے موقع پر پوجا کرنے پر مودی کو تنقید کا نشانہ بنایا۔

امرناتھ یاترا اور بدھ پرستی پر حملہ کرتے ہوئے سوامی اگنی ویش نے یہ کہا تھا کہ برفانی بابا یا برفانی شیو لنگ ایک طبعی کیفیت ہے جو کلسی رسوب اور کلسی فرش کے جمع ہونے کے عمل کے نتیجہ میں بنتا ہے یا تشکیل پاتا ہے۔ اسی ویڈیو میں انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ کچھ برسوں میں جب برف غیر مناسب انداز میں جمع ہوتی ہے تب برفانی لنگ کی شکل اختیار نہیں کرتا۔ ایسے میں اسے پوری طرح برفانی لنگ کی شکل دینے کے لئے اس پر برف ڈالنے کی ضرورت پڑتی ہے۔ اسی طرح سوامی اگنی ویش نے کمبھ میلہ کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔ اس میلے کے بارے میں ہندوؤں کا عقیدہ ہے کہ اس میں شریک ہوکر وہ اشنان کرتے ہیں تو گناہوں سے پاک ہو جاتے ہیں لیکن سوامی اگنی ویش کا کہنا تھا کہ اس قسم کے انتہائی گندے اور آلودہ پانی میں نہانے سے وہ نئے بیماریوں کا شکار ہوسکتے ہیں۔ بہرحال سوامی اگنی ویش مختلف سماجی تحریکوں کا حصہ رہے جس میں بندوا مزدور مورچہ بھی شامل ہے جس میں انہوں نے عصری غلامی یا عصری بندھوا مزدوری کی عالمی سطح پر خاتمہ کے لئے اقوام متحدہ کے بیانر تلے چلائی گئی ان کی تحریک بھی شامل ہے۔ سوامی اگنی ویش مادر شکم میں لڑکیوں کے قتل اور ستی کے خلاف تحریکوں سے بھی جڑے رہے۔ وہ ایک طویل عرصہ تک آریا سماج کا بھی حصہ رہے۔

ان کے غیر معمولی کارناموں کے باعث 2004 میں انہیں رائٹ لائیولی ہوڈ (نوبل انعام کا متبادل) بھی دیا گیا۔ مجھے یاد ہے کہ انہوں نے یہ ایوارڈ میرے عزیز دوست اصغر علی انجینئر کے ساتھ بڑی خوشی سے وصول کیا۔ سوامی اگنی ویش کو اسی سال راجیو گاندھی سدبھاونا ایوارڈ عطا کیا گیا۔ ویسے بھی کئی ایسے مسائل تھے جن پر کوئی بھی اگنی ویش کے ساتھ عدم اتفاق کرسکتا تھا۔ مثال کے طور پر انہوں نے ہندو ازم کی جو تشریح کی ہے ویدک دور وغیرہ کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے۔ اس کے باوجود ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ سوامی اگنی ویش نے معاشرے کے کمزور طبقات کو درپیش مسائل کے حل میں غیر معمولی دلچسپی لی۔ خاص طور پر بندھوا مزدوری، ستی کی رسم اور مادر شکم میں لڑکیوں کے قتل کے خلاف سخت موقف اپنایا۔ ہمیشہ زعفرانی لباس زیب تن کرنے والے ان سوامی جی کو ہندو قوم پرست بریگیڈ کے حامیوں نے مسلسل نشانہ بنایا اور ان پر حملوں کا یہ سلسلہ ڈاکٹر دابھولکر اور پھر کامریڈ کویند پنسارا، ڈاکٹر کلبرگی اور گاوری لنکیش جیسی شخصیتوں کے قتل کے ساتھ ہی شدت اختیار کرگیا۔ ان معقولیت پسندوں کے قتل کے واقعات سے معاشرہ میں عدم تحمل میں شدت کا اندازہ ہوتا ہے اور ان واقعات سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ جو کوئی حکمراں طبقہ کے خیالات سے اتفاق نہیں کرے گا اسے نشانہ بنایا جائے گا۔ اگنی ویش ہو یا پھر کوئی اور معقولیت پسند ان لوگوں پر جن لوگوں نے حملہ کیا ان سے بڑھ کر وہ لوگ خاطی ہیں جو مذہب کے نام پر لوگوں کا استحصال کرنے کے لئے اس طرح کے غنڈوں کو استعمال کرتے ہیں اور ان کی تائید و حمایت پر اتر آتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے مخالفین کے نظریات کو قوم دشمن اور مذہب دشمن قرار دیتے ہیں۔ ان کا مقصد صرف اور صرف مذہب کے نام پر استحصال کرتے ہوئے اقتدار حاصل کرنا اور اسے برقرار رکھنا ہوتا ہے۔

ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ تمام مذاہب میں ایک بانی ہوتا ہے اور ایک مقدس کتاب ہوتی ہے اس کے باوجود اس مذہب میں کئی فرقے فروغ پاتے ہیں۔ اس کے متضاد ہندو ازم میں کوئی واحد بانی نہیں ہے۔ واحد مقدس کتاب نہیں ہے۔ رسومات بھی جداگانہ ہیں۔ اس میں برہمن ازم، تانترا، نات، سدھانتا، شئیوا، وشنو اور بھکتی وغیرہ وغیرہ مختلف روایات ہیں۔ تنوع ہندو مذہب کی خوبی ہے۔ ہندو مذہب میں ہی سوامی دیانند سرسوتی آریہ سماج تشکیل دے سکتے ہیں اور اپنے اس نظریہ کا پرچار کرسکتے ہیں کہ ہندو ازم دراصل ویدوں کی بنیاد پر قائم کیا گیا مذہب ہے۔