معاشی بحران ‘ مودی حکومت

   

چل کے صحرا میں رہ لیا جائے
بیٹھے بیٹھے خیال آیا ہے
معاشی بحران ‘ مودی حکومت
اب یہ بات تقریبا سبھی گوشوں میں عام ہوگئی ہے کہ ہندوستانی معیشت بحران کا شکار ہوگئی ہے ۔ کوئی حلقہ یا شعبہ ایسا نہیں ہے جس کو معاشی بحران کی وجہ سے مشکلات کا سامنا کرنا نہیں پڑ رہا ہے ۔ اس صورتحال کیلئے مختلف عوامل کو ذمہ دار قرار دیا جا رہا ہے جن میں نوٹ بندی اور جی ایس ٹی کے نفاذ کو زیادہ اہمیت دی جا رہی ہے ۔ اس کے علاوہ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ ملک میں اصلاحات کی ضرورت ہے کیونکہ ماضی میں جو اصلاحات نافذ کی گئی تھیں اس کو تین دہوں کا عرصہ گذر چکا ہے ۔ اب وقت بدلنے لگا ہے اور بدلتے وقت کے تقاضوں سے خود کو ہم آہنگ کرنے کیلئے نئی اصلاحات لائی جانے کی ضرورت ہے ۔ معیشت کی جو صورتحال ہے اور جو اس کے اثرات ہوتے ہیں ‘ چاہے وہ منفی ہوں یا مثبت ہوں ‘ حکومت وقت ذمہ دار ہوتی ہے ۔ ہندوستان نے 1990 کی دہائی کے بعد معاشی میدان میں جو نمایاں پیشرفت کی ہے اور جو تیز رفتار ترقی کرتے ہوئے عالمی سطح پر ایک مستحکم معیشت کے طور پرا بھرا ہے اس کیلئے سابقہ حکومتوں کی پالیسیاں اور اصلاحات کا عمل ذمہ دارہے تاہم موجودہ حکومت نے جو اقدامات اور فیصلے کئے ہیں ان کے نتیجہ میں ترقی کا یہ سفر سست روی کا شکار ہوگیا ہے ۔ اس کے نتیجہ میں ملک میں مشکلات کا سامنا ہے ۔ راست یا بالواسطہ طور پر اس کے اثرات عام آدمی پر اور ان کی روز مرہ کی زندگیوں پر مرتب ہونے شروع ہوئے ہیں۔ حیرت اور افسوس کی بات یہ ہے کہ موجودہ حکومت اس معاشی ناکامی کیلئے خود ذمہ داری قبول کرنے تیار نہیں ہے حالانکہ اس حکومت کو تقریبا چھ سال کا وقت ہونے چلا ہے ۔ جس وقت نوٹ بندی اور جی ایس ٹی کے نفاذ کے فیصلے کئے گئے تھے اس وقت یہ کہا گیا تھا کہ مودی حکومت نے کارنامے انجام دئے ہیں اور صرف چند ہفتوں یا مہینوں میں معاشی صورتحال اتنی شاندار ہوجائیگی کہ دنیا کی بڑی معیشتوں کو ٹکر دینے کے موقف میں آجائے گی ۔ برطانیہ کو بھی پیچھے چھوڑ دیا جائیگا ۔ تاہم جب ان فیصلوں کے منفی اثرات سامنے آنے لگے ہیں تو اس کیلئے سابقہ حکومتوں کو اور خاص طور پر منموہن سنگھ اوررگھو رام راجن کے دور کو اس کیلئے ذمہ دار قرار دیا جا رہا ہے ۔
مرکزی حکومت اپنے زر خرید میڈیا کے ذریعہ یہ تاثر عام کرنے کی کوششوں میں بہت زیادہ مصروف ہے کہ ملک کے ساتھ ہونے والی ہر منفی چیز کیلئے سابقہ حکومتیں ذمہ دار ہیں اور ہر مثبت پہلو موجودہ حکومت کی کارکردگی سے مربوط ہے ۔ یہ طریقہ کار حکومت کی جانب سے حقیقت سے آنکھیں چرانے کے مترادف ہے اور حکومت کی ذمہ داری کی تکمیل سے فرار کے بھی مترادف ہے ۔ ایسا کرتے ہوئے موجودہ حکومت اپنی ذمہ داریوں سے بری الذمہ نہیں ہوسکتی اور نہ ہی سابقہ حکومتوں کو ذمہ داری تھوپتے ہوئے انہیں جوابدہ بناسکتی ہے ۔ سابقہ حکومتوں سے جب عوام نالاں ہوئے اور بیزار ہوئے تب ہی انہیں عوام نے اپنے ووٹ کی طاقت کے ذریعہ اقتدار سے بیدخل کردیا تھا ۔ اب موجودہ حکومت سے اس کو امیدیں وابستہ تھیں جو نہ پہلی معیاد میں پوری ہوئیں اور نہ اب ان کی تکمیل کی سمت کوئی پیشرفت ہوتی نظر آ رہی ہے ۔ حکومت کی معیشت پر سدھار کی توجہ انتہائی کم ہے بلکہ یہ کہا جائے تو بیجا نہ ہوگا کہ یہ توجہ نہ ہونے کے برابر ہے ۔ حکومت محض دوسروں پر الزام تراشی کرتے ہوئے اور ان پر ذمہ داری تھوپتے ہوئے اپنی ذمہ داری سے بری ہونے کی کوشش کر رہی ہے اور اس کام میں حکومت کو مخصوص میڈیا حلقوں کی مکمل تائید و حمایت حاصل ہے ۔ یہ در اصل حکومت کے حق میں ووٹ دینے والے رائے دہندوں سے دھوکہ کرنے کے برابر ہے ۔
معیشت کے ساتھ جو صورتحال ہوگئی ہے اس کو دیکھتے ہوئے مختلف گوشوں سے اندیشے ظاہر کئے جا رہے ہیں۔ مشکل وقت کا آغاز ہوچکا ہے اور یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ آنے والا وقت مزید مشکلات سے بھرا ہوسکتا ہے ۔ اس صورتحال میں حکومت کو صرف دوسروں پر الزام تراشی کے طریقہ کار کو بدلنے کی ضرورت ہے ۔ حکومت کومعیشت کے بحران کو پہلے تو قبول کرنا چاہئے ۔ پھر اس کے حل کیلئے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے ۔ اس سمت میں حکومت کو سبھی گوشوں سے تعاون اور ان کے مشورے لینا چاہئے چاہے یہ مشورے اپوزیشن کی صفوں سے ہی نکل کر کیوں نہ آئیں۔ معاملہ ملک اور ملک کی معیشت کا ہے اور اس پر کوئی تساہل برتنے سے حکومت کو گریز کرنا چاہئے ۔ معاشی سدھار کیلئے کوششیں جتنی تاخیر سے شروع ہونگی اتنا ہی زیادہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے اور اس کا خمیازہ عوام کو بھگتنا پڑ سکتا ہے ۔