معیشت پر وزیراعظم مودی کو کھلا خط

   

راج دیپ سردیسائی
ڈیئر پرائم منسٹر !
چونکہ کھلے خطوط کا سلسلہ چل پڑا ہے، میں نے سوچا کہ میں بھی ایک خط لکھوں۔ نہیں جناب! میں عوامی دانشوروں کی صفوں میں شامل نہیں ہورہا ہوںجو ہمارے اطراف بڑھتے اکثریتی نظریہ پر بیان بازی کررہے ہیں۔ میں تو بس جرنلسٹ اور سیاسی مبصر ہوں۔
جب جھارکھنڈ میں بھارتیہ جنتا پارٹی کے ایک وزیر کا ویڈیو سامنے آیا کہ وہ ایک کانگریس ایم ایل اے پر جئے شری رام بولنے کیلئے زور دے رہے ہیں، تب آپ کو پتہ ہے کہ کیوں ایک سادہ سا مذہبی نعرہ اتنی تیزی سے اشتعال انگیز جنگی نعرہ بن گیا کہ اس سے خائف اقلیتوں کو دھمکایا جاسکے۔ لیکن میں اس مایوسانہ انتشارپسند مسئلہ پر توجہ مرکوز کرنا نہیں چاہتا ہوں کیونکہ مجھے خواہش نہیں کہ ہم وطن شہریوں کی طرف سے بولنے پر ’اربن ماؤسٹ‘، ’خان مارکیٹ گینگسٹر‘، ’اینٹی نیشنل‘ اور اس سے کہیں بدتر القاب سے نوازا جاؤں۔اس کے بجائے، میں آپ کی توجہ ہمارے دور کے حقیقی مسئلہ پر مبذول کرانا چاہتا ہوں: معیشت کی صحت۔ یہ شاید میڈیا بالخصوص ٹیلی ویژن میڈیا کے اخلاقی اور دانشورانہ دیوالیہ پن کی عکاسی ہے کہ ہم نے اس بات پر غوروخوض کیلئے ذہن کو بہت کم کشادہ کیا کہ کیوں مرکزی بجٹ کے تقریباً ایک ماہ بعد بزنس کمیونٹی میں عمومی صورتحال کافی مایوس کن ہوگئی ہے۔ میں کوئی ماہر ہونے کا دعویٰ نہیں کرتا، لیکن معتبر رائے سنتا رہا ہوں جنھوں نے مسلسل بڑھتے مالی بحران، اور حکومتی مصارف اور مستقبل کی ترقی پر اس کے ممکنہ اثر کی وارننگ دی ہے۔
یا، طویل عرصے سے جاری بینکنگ بحران پر جس نے بالخصوص کئی مالیاتی اداروں، نان بینکنگ فینانشل کمپنیوں کو لپیٹ میں لے لیا ہے۔ یا، نجی سرمایہ کاری کی ترغیب دینے اور کنزیومر کی ڈیمانڈ کو بڑھانے میں ناکامی پر۔ یا، بیرونی سرمایہ کی بتدریج واپسی کی اطلاعات پر۔
تشویش و فکرمندی کی ان میں سے کئی باتوں پر بجٹ سے قبل بھی نجی حلقوں میں سرگوشیاں ہوتی رہیں، لیکن اب یہ ہورہا ہے کہ ہمارے بعض صنعت کار شخصیتیں اپنی آواز کو پیش کرنے لگے ہیں۔ آخر کو اس جیسا کچھ نہیں کہ اسٹاک بازاروں میں گراوٹ آئے اور اونچے ٹیکس کا سسٹم بہت مالدار زمرہ کے زائد از 5,000 افراد پر لاگو کیا جائے جو انڈسٹری کیلئے یکایک اپنی آوازوں کو بلند کرنے کا سبب بن جائے۔ ان کی فکرمندی شاید ذاتی مفاد سے متعلق ہو، لیکن وہ بڑھتی بے چینی کی عکاسی بھی کرتے ہیں جس طرح پالیسی میکرس ان چیلنجوں کو فراموش کرتے نظر آرہے ہیں جو بھاری عالمی رجحان اور ناقص دیسی اشاریوں کی وجہ سے پیش آرہے ہیں۔یہ تو لگ بھگ ایسا ہے جیسے بہت بڑی انتخابی فتح کے بعد مسلسل خوشیاں منانے کا مطلب ہے کہ ’’پیشہ ور قنوطیوں‘‘ کو ذرا فاصلے پر ہی رکھا جائے، کیونکہ اندیشہ ہے کہ وہ جشن کے ماحول کو بگاڑ سکتے ہیں۔ اچھے احساس کا عنصر آخر نشہ آور تو ہوتا ہے۔ آپ کیوں چاہتے ہیں کہ اختلاف رائے رکھنے والے کم از کم کچھ تو مختلف موقف کا اظہار کریں۔
جناب! یہ سچ ہے کہ ابھی تک آپ کی حکومت معیشت کو سیاست سے علحدہ رکھنے میں کامیاب رہی ہے، ایسی صورتحال جہاں معاشی صحت کا انتخابی کامیابی پر بہت کم یا کوئی اثر نہیں ہوتا ہے۔ نقادوں کا استدلال ہے کہ یہ کام فرضی اعداد و شمار یا ڈیٹا کو دباتے ہوئے کیا گیا ہے، یا پھر بڑی آسانی سے ساری ذمہ داری نہرو دور کی نقص بھری معاشیات کی 70 سالہ وراثت پر ڈال دی گئی ہے۔ میرا احساس ہے کہ موافق غریب ’’فلاح پسندی‘‘ پر خود آپ کی بے تکان توجہ نے سرکاری پروگراموں کے استفادہ کنندگان کا بڑا سیاسی حلقہ پیدا کیا ہے، جنھیں پرواہ نہیں کہ آیا جی ڈی پی 6% ہے یا 8% جب تک ان کو ایک پکا مکان، ایک ایل پی جی سلنڈر اور ایک ٹائلٹ حاصل ہو ، یا کم از کم ان کی خواہش کرسکیں۔
لیکن کسی کو تو ووٹ بینک فلاح پسندی کیلئے ضرور ادائیگی کرنا چاہئے، اور جلد یا بہ دیر اعداد و شمار بڑھنے لگتے ہیں۔ تفاوت کی عکاسی بجٹ دستاویزات میں غائب 1.7 لاکھ کروڑ کی پُراسرار کیفیت سے ظاہر ہوجاتی ہے … صاف ظاہر ہے، گزشتہ مالی سال میں ٹیکس وصولیات توقع سے کافی کم رہیں، اور سست رو معیشت کے ساتھ اندیشہ ہے کہ اعداد وشمار مزید ابتر ہوسکتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ حکومت کو مالی بحران پر معاملہ صاف کرلینے کی ضرورت ہے۔ بیرون ملک رقم اکٹھا کرنے کے سیاسی طور پر پیچیدہ فیصلے کیلئے فینانس سکریٹری کو قربانی کا بکرا بنانا کوئی حل نہیں ہے۔ نا ہی اس بات میں جواب مضمر ہے کہ ریزرو بینک آف انڈیا کو اس کے اچھی طرح محفوظ فنڈز دینے پر مجبور (یا زبردستی چھین لینا بھی کہہ سکتے ہیں) کیا جائے (کیا ایل آئی سی اگلا نشانہ ہوگا؟)۔
اور نا ہی کوئی حل نام نہاد نج کاری میں ہوسکتا ہے، جس میں ایک پی ایس یو کو دیگر کو خرید لینے پر راغب کیا جاتا ہے۔ یا، ایندھن کی قیمتوں میں اس حد تک اضافہ کرنا کہ متوسط طبقہ کراہنے لگے۔ یا، راست اور بالواسطہ ٹیکسوں کو عائد کرتے ہوئے، جو بالآخر سرمایہ اور ترقی کیلئے حوصلہ شکن عنصر بن جاتے ہیں۔نہ کوئی حل شہ سرخیوںکو ہوشیاری سے استعمال کرنے میں مضمر ہوسکتا ہے، جہاں آرٹیکل 35A یا مندر۔ مسجد جیسے جذباتی مسائل نیوز ایجنڈے کو یرغمال بنا لیتے ہیں۔ اس بحران کی یکسوئی کا پہلا قدم انکاری کے رجحان کو ختم کیا جائے اور قبول کریں کہ ’’اچھے دن ختم ہوچکے‘‘۔ پھر بزنس کو واپس درست راہ پر گامزن کرنے کے ’حقیقی‘ کام کو انجام دیا جائے۔
اختتامی تبصرہ
یہ کھلا خط موزوں ہوتا کہ 50 سرکردہ صنعت کار لکھتے، جنھیں معیشت پر حکومت کے ساتھ منظم بات چیت کا مطالبہ کرنا چاہئے۔ افسوس کہ ایک یا دو نمایاں شخصیتوں کو چھوڑ کر، مجھے شبہ ہے کہ انڈسٹری کے موافق حکومت اشخاص جو لگ بھگ ہر بجٹ کو مرعوبیت سے 10 میں سے 10 نشانات دیتے ہیں، حکومت کو آئینہ دکھانے کی جرأت کرپائیں گے۔
rajdeepsardesai52@gmail.com