مفسرۂ قرآن و حدیث اُم المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا

   

اُمہات المؤمنین (ازواج مطہرات)

سیدہ ساجدہ طیبہ طاہرہ حضرت ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا ،تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی دوسری مقدس زوجہ محترمہ ہیںآپ کا نام عائشہ اور کنیت اُم عبداللہ ہے ۔ آپ رضی اللہ عنہا کی کنیت اُم عبداللہ ،تاجدار کائنات ﷺنے ہی رکھی تھی جبکہ آپؓ کے بھانجے حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کو بغرض تحنیک بحضور نبویؐ پیش کیا گیا تو حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا، یہ عبداللہ ہے اور تم اُم عبداللہ ہو۔(فتح الباری)
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا آخری زندگی میں برابر فتوے دیتی رہیں۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ اور حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ اکثر مجسم قرآن حضرت محمد ﷺ کی عزیز ترین زوجہ مطہرہ مجسم حدیث حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے استفسار فرماتے تھے۔ حضرت عائشہ ؓانتہائی تحمل کے ساتھ ان کی باتیں سنتیں اور انتہائی خندہ پیشانی کے ساتھ ان کو تسلی بخش جواب سے نوازتیں۔
عائشہ کے معنی ہیں خوشحال اور صاحب اقبال چونکہ عائشہ رضی اللہ عنہا ایک کھاتے پیتے اور خوشحال گھرانے سے تعلق رکھتی تھیں۔ ان کے والد ماجد حضرت عبداللہ ابوبکر رضی اللہ عنہ قریش کے سرداروں میں سے تھے اور قبیلہ تیم بن مرہ سے تعلق رکھتے تھے۔ علم الانساب میں ماہر تھے اور ان کا کاروبار بھی دور دور تک پھیلا ہوا تھا لہذا خاندانی شرف اور مالی خوشحالی کی بناء پر ان کے والدین نے ان کا نام عائشہ رکھا اور چشم فلک نے دیکھا کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ اور ام رومان کی بیٹی عائشہ اسم بامسمیٰ یعنی بلند اقبال ٹھہریں اور ام المومنین کے مرتبے پر فائز ہوئیں۔صدیقہ آپ رضی اللہ عنہا کا لقب، ام المومنین آپ کا خطاب جبکہ ام عبداللہ آپ رضی اللہ عنہا کی کنیت تھی۔ عرب میں کنیت شرف کا نشان سمجھی جاتی تھی اس وجہ سے ہر مرد اور عورت اپنی کنیت ضرور رکھتے تھے۔ چنانچہ ایک مرتبہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے بارگاہ رسالت مآب ﷺ میں عرض کیا: یارسول اللہ ﷺ آپ میری بھی کنیت مقرر فرمادیں کیونکہ میری تمام سہیلیوں کی کنیتیں ہیں حضور ﷺ نے فرمایا: تو اپنی بہن اسماء زوجہ حضرت زبیر بن العوام رضی اللہ عنہ کے نومولود بیٹے اور اپنے بھانجے عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کے نام پر اپنی کنیت اُم عبداللہ رکھ لے۔
(مسند احمد، ابودائود، مستدرک حاکم)
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بعثت کے چوتھے سال پیدا ہوئیں ، ازواج مطہرات میں سے یہ شرف تنہا انہیں کو حاصل ہے کہ ان کے والدین ان کی پیدائش سے پہلے ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعوت ایمان قبول کرچکے تھے اور صحیح بخاری و صحیح مسلم اور جامع ترمذی میں ہے کہ خواب میں متعدد بار رسول اللہ ﷺ کو ان کی صورت دکھلائی گئی اور بتلایا گیا کہ یہ دنیا و آخرت میں آپ ﷺ کی زوجہ ہونے والی ہیں۔ ازواج مطہرات میں صرف انہیں کو یہ شرف حاصل ہے کہ وہ صغر سنی یعنی قریبا ۹۔۱۰ سال کی عمر سے رسول اللہ ﷺ کی صحبت و رفاقت اور تعلیم و تربیت سے مستفید ہوتی رہیں، اسی طرح چند اور سعادتین بھی تنہا انہیں کے حصہ میں آئیں جن کا وہ خود اللہ تعالیٰ کے شکر کے ساتھ ذکر فرمایا کرتی تھیں: تنہا مجھے یہ شرف نصیب ہوا کہ رسول اللہ ﷺکے عقد نکاح میں آنے سے پہلے سے آپ ﷺکو خواب میں میری صورت دکھلائی گئی اور فرمایا گیا کہ یہ دنیا اور آخرت میں آپ کی زوجہ ہونے والی ہیں۔ اور آپﷺ کی ازواج میں سے تنہا میں ہی ہوں جس کا آپ ﷺکی زوجیت میں آنے سے پہلے کسی دوسرے کے ساتھ یہ تعلق اور رشتہ نہیں ہوا۔ اور تنہا مجھ ہی پر اللہ تعالیٰ کا یہ کرم تھا کہ آپ ﷺجب میرے ساتھ ایک لحاف میں آرام فرما ہوتے تو آپ ﷺپر وحی آتی، دوسری ازواج میں کسی کو یہ سعادت میسر نہیں ہوئی اور یہ کہ میں ہی آپ ﷺ کی ازواج میں سے آپﷺ کو سب سے زیادہ محبوب تھی اور اس باپ کی بیٹی ہوں جو حضورؐ کو سب سے زیادہ محبوب تھے۔ اور یہ شرف بھی آپ ﷺکی ازواج میں سے مجھے ہی نصیب ہے کہ میرے والد اور میری والدہ دونوں مہاجر ہیں اور یہ کہ بعض منافقین کی سازش کے نتیجہ میں جب مجھ پر ایک گندی تہمت لگائی گئی تو اللہ تعالیٰ نے میری براء ت کے لئے قرآنی آیات نازل فرمائیں جن کی قیامت تک اہل ایمان تلاوت کرتے رہیں گے، اور ان آیات میں مجھے نبی پاک طیب کی پاک بیوی طیبہ فرمایا گیا، نیز اس سلسلہ کی آخری آیت میں اُولٰٓئِكَ لَـهُـمْ مَّغْفِرَةٌ وَّرِزْقٌ كَرِيْـمٌفرماکر میرے لئے مغفرت اور رزق کریم کا وعدہ فرمایا گیا ہے۔
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے کاشانہ نبوت ﷺ میں بطور زوجہ قریباً دس برس گزارے او رکم و بیش نصف قرآن اس عرصہ میں سرکار دو عالم ﷺپر آپ کے ہاں رہتے ہوئے نازل ہوا۔ جو حصہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے حریم نبوت ﷺ میں داخل ہونے سے پہلے اُتر چکا تھا اس سے بھی آپ رضی اللہ عنہا بخوبی باخبر تھیں مزید یہ کہ رب کائنات نے آپ کو ایسے اسباب اور مواقع عطا فرمائے کہ معلم کائنات ﷺ کی صحبت کی وجہ سے آپ رضی اللہ عنہا قرآن پاک کی ایک ایک آیت کی طرز قرأت، موقع استدلال اور طریقہ استنباط پر کامل عبور رکھتی تھیں۔ آپ رضی اللہ عنہا ہر مسئلہ کے حل کے لئے اکثر قرآن پاک سے رجوع فرماتی تھیں۔ ایک دفعہ چند حضرات آپ رضی اللہ عنہا کے پاس آئے اور عرض کی:اُم المومنین رضی اللہ عنہا! آپؓ رہبر کائنات ﷺکے کچھ اخلاق بیان فرمائیں۔ آپؓ نے فرمایا: کیا تم قرآن نہیں پڑھتے۔ امام کائنات صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا اخلاق سرتاپا قرآن تھا۔