ملازمین کی تخفیف کا رجحان

   

دنیا بھر میں ملازمین کی تخفیف کا رجحان عام ہوتا جا رہا ہے ۔ جو بڑے اور عالمی ادارے ہیں ان میںہزاروں ملازمین کی تخفیف ہوتی جا رہی ہے ۔ یہ سلسلہ رکنے یا تھمنے کا نام نہیں لے رہا ہے بلکہ یہ مزید دراز ہوتا جا رہا ہے ۔ یکے بعد دیگرے عالمی اداروں اور کمپنیوں کی جانب سے ملازمین کی تخفیف اور برطرفی کا سلسلہ جاری ہے ۔ کئی کمپنیاں اب تک ہزاروں ملازمین کو گھر بٹھا چکی ہیں ۔ مزید کئی کمپنیاں اور ادارے مزید ہزاروں افراد کو روزگار سے محروم کرنے کا منصوبہ رکھتے ہیں۔ دھیرے دھیرے ملازمین کی تخفیف کرتے ہوئے خاموشی سے اپنے عزائم کو پورا کیا جا رہا ہے ۔ یہ رجحان دنیا بھر میں پیدا ہونے لگا ہے اور ہندوستان بھی اس سے مستثنی نہیں رہ گیا ہے ۔ ملک میں بھی کئی اداروں اور کمپنیوں کی جانب سے ملازمین کی تخفیف ہوتی جا رہی ہے ۔ آج دنیا جن معاشی حالات کا شکار ہے ان میں دولتمند ترین افراد مزید دولت مند ہوتے جا رہے ہیں۔ غریب انسان کی غربت میں مزید اضافہ ہوتا جا رہا ہے اور ان کے معیار زندگی میں گراوٹ آتی جا رہی ہے ۔ یہ جو رجحان ہے وہ بجائے خود ایک منفی رجحان کہا جاسکتا ہے کیونکہ دولتمندوں کی دولت میںاضافہ اور غریبوں کی غربت میں اضافہ در اصل سماج میں خلیج پیدا کرنے کا باعث ہے ۔ اس کے ذریعہ خلا پیدا ہونے لگا ہے اور حیرت کی بات یہ ہے کہ دولتمندوں کے پاس دولت کا بڑا حصہ ہے اور غریب صرف دال روٹی تک محدود ہوتاجارہا ہے ۔ اس پر طرفہ تماشہ یہ ہے کہ غریب عوام ٹیکس اور محاصل کا ایک بڑا حصہ ادا کرتے ہیں اور دولتمندوں پر ٹیکس برائے نام ہی عائد ہوتا ہے ۔ کئی مواقع پر تو نہیں مراعات دی جاتی ہیں۔ ان پر ملک کی دولت لٹائی جاتی ہے ۔ انہیں ہر طرح کی سہولت دی جاتی ہے جس کے ذریعہ وہ اپنی دولت میں دن دوگنی اور رات چوگنی اضافہ کرتے جا رہے ہیں۔ یہ صورتحال ایسی ہے جس سے سماج میں عدم توازن بڑھتا جا رہا ہے ۔ اس کو دور کرنے کیلئے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے ۔ سماج میں توازن برقرار رکھنا بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہوتا ہے ۔ اس پر حکومت اور اس کے ذمہ دار اداروں کو فوری توجہ کرنے کی ضرورت ہے ۔
اس صورتحال میں اگر ہزارہا ملازمین کو نوکریوں سے محروم کیا جاتا رہے گا اور ملازمین کی تعداد میں کمی آتی جائے گی تو یہ عدم توازن اور بڑھے گا ۔ اس کے نتیجہ میں عام آدمی کی زندگی پر اثرات منفی ہوتے جائیں گے اور دولتمندوں اور غریبوں کے درمیان خلیج بڑھتی جائے گی ۔ جہاں تک نوکریوں کا سوال ہے تو اس کے نتیجہ میں ملک کے عام معاشی حالات بھی متاثر ہونگے ۔ عوام کی قوت خرید میں کمی آئے گی ۔ ان کے معیار زندگی پر منفی اثرات مرتب ہونگے اور اس کے نتیجہ میں دولتمندوں کی دولت میں مزید اضافہ ہوتا چلا جائے گا ۔ یہ سلسلہ لامتناہی ہوتا جا رہا ہے ۔ اس پر توجہ کرتے ہوئے سماج میں دولت کے علاوہ ترقی کے ثمرات کی یکساں تقسیم کو یقینی بنانے پر توجہ دینے کی ضرورت ہوگی ۔ ملازمتوں میں تخفیف کا سلسلہ ختم کرنے پر توجہ کرنا ہوگا یا پھر اس کو روکنے کیلئے اقدامات کرنے ہونگے ۔ ملازمتوں کی مارکٹ پر توجہ کرتے ہوئے وہاں جو اتھل پتھل جاری ہے اس کو بھی روکنا چاہئے ۔ نوکریوں میں تخفیف کے نتیجہ میں بیروزگاری کی شرح میںاضافہ ہوتا جائیگا ۔ بیروزگاری کی شرح پہلے ہی بہت زیادہ ہے ۔ اگر اس میں مزید اضافہ ہوتا جائے گا تو اس کے عام معاشی حالات اور سرگرمیوں پر منفی اثرات کے اندیشے مسترد نہیں کئے جاسکتے ۔ سماجی عدم توازن کو روکنے اور استحکام کو یقینی بنانے پر توجہ کرتے ہوئے اس صورتحال پر قابو پانے کی ضرورت ہے ۔ اس کو محض ٹال مٹول کے انداز میں نہیںدیکھا جاسکتا ۔ اس پر جامع حکمت عملی ضروری ہے ۔
ملک میں معاشی سرگرمیوں اور حالات کی بہتری کو یقینی بنانے پر توجہ کرنی ہوگی ۔ اس کے علاوہ بڑے اداروںاور کمپنیوں سے بھی اس مسئلہ کو رجوع کرتے ہوئے ان کے ساتھ مشاورت کرنی ہوگی ۔ اس بات کو یقینی بنانا ہوگا کہ ملازمتوں میں تخفیف کا سلسلہ رک جائے ۔ ایسا کرنے اس لئے بھی ضروری ہے کیونکہ اندرون ملک کے معاشی حالات پر کوئی منفی اثر نہ ہونے پائے ۔ دنیا بھر میں جو حالات ہیں ان کو دیکھتے ہوئے ہندوستان کو قبل از وقت احتیاطی اقدامات پر خاص توجہ دینی ہوگی اور ان میں ملازمتوں کی برقراری بھی اہمیت کی حامل ہے ۔ حکومت کو اس کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے اقدامات کرنے چاہئیں۔