ملک میں نظریات کی تباہی

   

امید و بیم نے مارا مجھے دو راہے پر
کہاں کے دیر و حرم گھر کا راستہ نہ ملا
ہندوستان ‘ کثرت میں وحدت والا ملک ہے ۔ یہاں مختلف مذاہب کے ماننے والے لوگ رہتے بستے ہیں۔ کئی زبانیں بولی جاتی ہیں۔ کئی طرح کے رسوم و رواج ہیں۔ کہیںکوئی روایت بہت اہم ہے تو کہیں اور کہیں اسے پوری طرح نظر انداز کیا جاتا ہے ۔ ایک ہی مختلف میں مختلف مقامات پر مختلف روایات بھی یہاں پائی جاتی ہیں۔ بے شمار زبانیں ہندوستان میں بولی جاتی ہیں۔ اسی کو ہندوستان کی ایک منفرد شناخت بھی کہا جاتا ہے ۔ اپنے اپنے مذہب اور روایات کی اپنے طور پر پاسداری کرنے اور اس پر عمل کرنے کے باوجود سبھی لوگ ہندوستانی ہیں۔ دنیا بھر میں کثرت میں وحدت کی مثال سب سے بہترین ہندوستان ہی پیش کرتا رہا ہے ۔ تاہم حالیہ کچھ برسوں میں بلکہ گذشتہ آٹھ برسوں میں خاص طور پر اس روایت کو مسخ کرنے کی کوششیں ہو رہی ہیں۔ صرف ایک نظریہ کو مسلط کرنے کی کئی گوشوں کی جانب سے کوششیں ہو رہی ہیں ۔ دوسروں کو نشانہ بنانے اور ان کو نیچا دکھانے کی کوششوں سے بھی گریز نہیں کیا جا رہا ہے ۔ ملک کے جو ذمہ دار اور فکرمند گوشے ہیں وہ اس صورتحال پر فکرمند ہیں۔ وہ اس پر وقفہ وقفہ سے تشویش کا اظہار بھی کرتے ہیں۔ کچھ گوشے ہمت جٹاتے ہوئے حکومت اور اس کے ذمہ داروں سے سوال بھی کرتے ہیں۔ کچھ دانشور اور سابق عہدیدار حکومت کو مکتوب روانہ کرتے ہوئے بھی اس کی توجہ مبذول کروانے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن اس جانب کوئی توجہ نہیں دی جا رہی ہے اور نہ ہی بگڑتے حالات کو بہتر بنانے کیلئے کوئی اقدامات کئے جا رہے ہیں۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ اس طرح کے مسائل کی سنگینی کو ہی تسلیم نہیں کیا جا رہا ہے ۔ اس جانب کوئی توجہ دینے اور صورتحال کے بگڑنے کا اعتراف کرنے کیلئے بھی کوئی تیار نہیں ہے ۔ کئی گوشوں کی جانب سے توجہ دلانے کا بھی حکومت اور اس کے ذمہ داروں پر کوئی اثر نہیں ہو پا رہا ہے ۔ اس صورتحال کی وجہ سے ملک کے حالات اور بھی متاثر ہو رہے ہیں۔ جس طرح کچھ گوشوں کا تاثر ہے کہ ملک کے تمام اہم دستوری اداروں پر رجعت پسندوں اور شدت پسندوں کا تسلط ہوتا جا رہا ہے ۔ نفاذ قانون کی ایجنسیوں کی غیر جانبداری بھی مشکوک ہوگئی ہے ۔
ملک کی ایک اور معروف جہد کار اور پدما بھوشن ایوارڈ یافتہ ملیکا سارابائی نے بھی اب صورتحال پر تشویش کا اظہار کیا ہے ۔ انہوں نے کولکاتہ میں ایک تقریب سے خطاب میں کہا کہ ملک کے نظریات کو پوری طرح سے تباہ کیا جا رہا ہے ۔ ملیکا سارا بائی کا یہ بھی کہنا تھا کہ ہندو ازم کے نام ہندوتوا کو عوام کے گلے پر مسلط کیا جا رہا ہے ۔ یہ ریمارکس اس تناظر میں اہمیت کے حامل ہیں کہ ہندوتوا کے نام پر کچھ فرقہ پرست عناصر کی جانب سے ملک کے دوسرے طبقات کا جینا حرام کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ ان کا عرصہ حیات تنگ کیا جا رہا ہے ۔ ان کے تعلق سے اشتعال انگیزیاں کی جا رہی ہیں۔ مسلمانوں کو خاص طور پر ملک میں نشانہ بنایا جا رہا ہے ۔ انہیں دوسرے درجہ کا شہری بنانے کی کوششیں ہو رہی ہیں۔ ان کے خلاف زہر افشانی عام ہوگئی ہے ۔ مسلمانوں کو مختلف بہانوں سے قتل کرنے والوں کو تہنیت پیش کی جا رہی ہے ۔ ہندووں کو گھروں میں ہتھیار تیز رکھنے کی تلقین کی جا رہی ہے ۔ مسلمانوں کی نسل کشی کے منصوبے بنائے جا رہے ہیں۔ ملک کے ماحول کو پراگندہ کرنے سے گریز نہیں کیا جا رہا ہے ۔ افسوس ناک بات یہ ہے کہ اس طرح کی حرکتیں کرنے والے وہ عناصر ہیں جو راست یا بالواسطہ طور پر برسر اقتدار جماعت یا اتحاد سے تعلق رکھتے ہیں۔ ہجومی تشدد میں بے گناہ افراد کی جان لینے والوں کو مرکزی وزراء کی جانب سے تہنیت پیش کی جا رہی ہے ۔ اجتماعی عصمت ریزی کرنے والوں کو سنسکاری قرار دینے میں کوئی شرم محسوس نہیں کی جا رہی ہے ۔
مختلف گوشوں سے جو بیانات دئے جا رہے ہیں اور جس طرح کی سرگرمیاں شروع کی گئی ہیں وہ قابل تشویش ہیں۔ حکومت کو اورا س کے ذمہ داروں کو اس جانب توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔ ہندوستان آج دنیا بھر میں اپنی اہمیت منوانے کی سمت آگے بڑھ رہا ہے ۔ دنیا بھر کے ممالک ہندوستان سے توقعات وابستہ کر نے لگے ہیں۔ ملک کی اہمیت کو تسلیم کیا جا رہا ہے ۔ اس کو قائدانہ ذمہ داری مل رہی ہے ۔ ایسے میں اگر اندرون ملک کے حالات پر کنٹرول نہیں کیا گیا تو عالمی سطح پر ملک کی شبیہہ متاثر ہوسکتی ہے ۔ حالات کے زیادہ خراب ہونے سے پہلے ہی حکومت کو حرکت میں آتے ہوئے شدت پسند عناصر پر قابو کرنے کی ضرورت ہے ۔