ملک کا قیمتی سرمایہ ’’بچے ‘‘خطرے میں

   

پی چدمبرم
سابق مرکزی وزیر داخلہ و فینانس
مرکزی حکومت اور اس کے وزراء پاکستان سے خطرہ، ایک بے نام پڑوسی (چین) سے عداوت و دشمنی، ہندوتوا، پارلیمنٹ میں خلل، آندولن جیویز (احتجاجی مظاہروں پر زندہ رہنے والے)، موروثی سیاست، بناء کسی ترقی کے 70 سال، ہندوستان ایک وشوا گرو وغیرہ وغیرہ موضوعات پر مسلسل باتیں کرتے ہیں اور یہ بتانے کی کوشش کرتے ہیں کہ ہمیں ملک کی ترقی کا کتنا خیال ہے۔ مرکزی حکومت اور اس کے وزراء متنازعہ موضوعات پر مسلسل بولے جاتے ہیں لیکن میں نے کبھی انہیں ہمارے بچوں کی حالت زار بالخصوص صحت و تعلیم کے شعبوں میں ہمارے بچوں کے موقف پر کبھی کچھ کہتا نہیں سنا۔ آپ کو بتا دوں کہ راقم الحروف اینول اسٹیٹس آف ایجوکیشن رپورٹ (ASER) کو بڑی تندہی سے فالو کرتا ہوں۔ یہ رپورٹ وقفے وقفے سے شائع کی جاتی ہے اور میں اس کا بغور جائزہ لیتا رہتا ہوں، کیونکہ مجھے اپنے ملک کے بچوں کی ، ان کی صحت کی، ان کی تعلیم کی فکر لاحق رہتی ہے۔ ہمارے پاس سال 2018ء اور 2020ء کی اے ایس ای آر رپورٹ موجود ہیں۔ اب 17 نومبر 2021ء کو اے ایس ای آر رپورٹ برائے سال 2021ء بھی شائع ہوچکی ہے۔ اسی وقت خاندانی صحت سے متعلق قومی سروے۔5 (2019-21ء) کی بھی اشاعت عمل میں آئی۔ نیشنل فیملی ہیلتھ سروے۔5 کیلئے بھی این ایچ ایف ایس۔ 4 کا نمونہ ہی اپنایا گیا اور اسی کے نتیجہ میں تقابلی جائزہ میں مدد ملی۔ یہ دو رپورٹس یعنی اے ایس ای آر۔ 2021ء اور این ایچ ایف ایس۔ 5 ایسی رپورٹ ثابت ہوئی جس میں حقیقی ہندوستان کی تصویر پیش کی گئی۔ ان رپورٹس میں ہندوستان کو اس طرح نہیں دکھایا گیا جس طرح بامبے اسٹاک ایکسچینج اشاریہ یا نفٹی اشاریہ میں زائد از 100 درج فہرست کمپنیوں کی حالت زار یا ان کے موقف کے بارے میں دکھایا جاتا ہے۔ دونوں رپورٹس پچھلے دو ہفتوں سے عوام کے مطالعہ کیلئے موجود ہیں، لیکن میں کسی بھی طرح یہ یاد نہیں دلا سکتا کہ وزیراعظم یا وزیر تعلیم یا پھر وزیر صحت نے ہندوستانی بچوں کی تعلیم یا صحت کے موضوع پر کچھ کہا ہو۔
دو رپورٹیں اور ان کے کلیدی نتائج
این ایف ایچ ایس ۔ 5 اور اے ایس ای آر ۔2021ء ان دونوں رپورٹس میں کورونا وائرس وباء کے اثر کا تفصیلی جائزہ لیا گیا۔ ان رپورٹس کو بہ آسانی نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ ان رپورٹس کے جو نتائج آئے ہیں، وہ یقینا ہماری آنکھیں کھولنے کیلئے کافی ہیں اور انتہائی پریشان کن بھی ہیں۔ سب سے پہلے میں آپ کو اے ایس ای آر ۔ 2021ء (دیہی)کے نتائج کے بارے میں واقف کرواتا ہوں۔
(1) رپورٹ کی تیاری کے دوران خانگی اسکول سے سرکاری اسکولوں میں ناموں کے واضح اندراج یا واضح منتقلی دیکھی گئی۔
(2) ٹیوشن پڑھنے والے بچوں کی تعداد میں اضافہ دیکھا گیا۔
(3) اسمارٹ فون کے حامل لوگوں کی تعداد میں اضافہ ہوا لیکن ان اسمارٹ فون تک بچوں کی رسائی ہنوز ایک مسئلہ بنا ہوا ہے۔
(4) اسکولس کی دوبارہ کشادگی کے ساتھ ہی گھروں میں سیکھنے سکھانے کیلئے جو مدد ملا کرتی تھی، اس میں کمی آئی۔
(5) بچوں کیلئے سیکھنے کے سامان کی دستیابی میں ہلکا سا اضافہ ہوا ۔
این ایچ ایف ایس ۔ 2019-21ء :
(1) جملہ شرح بالیدگی 2.0 تک پہنچ گئی لیکن تین ریاستوں کی آبادی (پسماندہ ریاستوں میں یہ شامل ہیں) میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے اور وہ بھی اعلیٰ شرح پر۔
(2) پچھلے پانچ برسوں کے دوران پیدا ہونے والے بچوں میں صنفی تناسب ناقابل بیان حد تک گر کر 929 ہوگیا (بچوں سے بچے)
(3) حفظان صحت ، آج بھی لاکھوں خاندانوں کیلئے صاف ستھرا فیول اور صحت کے مسائل اہم چیلنجس بنے ہوئے ہیں۔
(4) شرح اموات کم ہوتی جارہی ہے، لیکن اس کے باوجود ناقابل بیان حد تک زیادہ ہے۔ بچوں کے لئے نشوونما رک جانا ، خون کی کمی اور ان کی زندگیوں کا خاتمہ بہت بڑے چیلنجس بنے ہوئے ہیں۔ آپ کو بتا دوں کہ تعلیم سے متعلق جو نتائج پہلے سیٹ میں آئے ہیں، اسے صحت سے متعلق دوسرے سیٹ کے نتائج سے جوڑ دیا جائے تو ایک نئی تصویر ابھر کر سامنے آئے گی اور یہ پتہ چلے گا کہ بچے کسی بھی ملک کیلئے ایک قیمتی ذریعہ یا وسیلہ ہوتے ہیں، لیکن ان دونوں نتائج کو جوڑنے سے خاص طور پر ہمارے ملک کے بارے میں یہ بات ثابت ہوگی کہ ہمارے ملک میں بچوں یعنی ہمارے قیمتی اثاثے کو بری طرح نظرانداز کیا گیا ہے اور شاذ و نادر ہی بچوں کے مسائل پر یا اس موضوع پر کوئی سرکاری سطح پر یا عوامی سطح پر مباحث ہوتے ہوں۔ یہاں تک کہ بچوں اور خواتین کی بہبود کیلئے مخصوص وزارت جسے ہم ’’وزارت بہبود ِ خواتین و اطفال‘‘ کہتے ہیں۔ وہ بھی بچوں کے تئیں خواب غفلت میں پڑی ہوئی ہے۔
عدم مساوات میں اضافہ
اگر دیکھا جائے تو تمام ملکوں میں مختلف طبقات کے درمیان یا مختلف طبقات میں عدم مساوات کا مشاہدہ کیا جاتا ہے۔ اس سلسلے میں آمدنی اور دولت کا جو فرق ہے، وہ سب سے بڑا فرق ہے۔ ان دو چیزوں کی بناء پر عدم مساوات فروغ پاتی ہے۔ سماجی اور اقتصادی طور پر محروم طبقات سے تعلق رکھنے والے گروپس غرباء میں شامل ہیں اور ان ہی گروپس میں سب سے زیادہ بیروزگار پائے جاتے ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ ریاست کی جانب سے بھی ان گروپوں سے امتیاز برتا جاتا ہے۔ انہیں نظرانداز کیا جاتا ہے۔ ان حالات میں آپ تصور کرسکتے ہیں کہ اس طرح کے لوگوں کے بچوں کی تعلیمی حالت کیا ہوگی اور صحت کے معاملے میں ان کا درجہ کیا ہوگا۔ دوسرے بچوں کے مقابل یہ بچے تعلیمی اور صحت کے معاملے میں بہت پچھڑے ہوں گے۔ آپ کو یہ بھی بتانا ضروری ہے کہ اے ایس ای آر اور این ایف ایچ ایس نے ڈیٹا کا مذہب یا ذات پات پر مبنی جائزہ نہیں لیا بلکہ یہ سب کچھ بچوں کے بارے میں ہے۔ ذرا سا غور کیجئے کہ ہمارے جدید ہندوستان میں کس طرح کے بچے نمو پارہے ہیں۔ خاص طور پر ایک ایسے وقت جبکہ ہمارا ملک کورونا وائرس کی وباء کا سامنا کررہا ہے ۔ جب میں نے ان تمام چیزوں پر غور کیا تو حسب ذیل نتائج پر پہنچا …
٭ ہندوستانی جوڑے کم بچے پیدا کررہے ہیں، لیکن ان بچوں کی تعداد میں تفاوت پایا جاتا ہے مثلا مرد لڑکے زیادہ ہیں اور لڑکیاں کم ہیں جبکہ بحیثیت مجموعی بچیوں سے بچوں کا صحت مندانہ صنفی تناسب 1020 ہے، لیکن صفر سے لے کر پانچ سال تک کی عمر کے بچوں میں یہ خطرناک حد تک گر کر 929 ہوگیا۔ اس اعداد و شمار پر کئی سوالات اُٹھتے ہیں۔ میرے خیال میں اس بارے میں بڑی جانفشانی کے ساتھ تنقیح کی جانی چاہئے لیکن یہ رجحان درست ثابت ہوتا ہے تو یہ ہمارے لئے گہری تشویش کی بات ہے۔
٭ میں نے سطور بالا میں جن تین پسماندہ ریاستوں کا ذکر کیا وہ ایسی ریاستیں ہیں جہاں خراب حکمرانی کا سلسلہ جاری ہے اور ان ریاستوں میں آبادی کی شرح قومی اوسط سے کہیں زیادہ ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ان غریب ریاستوں میں بہت زیادہ بچے پیدا کئے جارہے ہیں اور ریاستوں میں ایسا لگتا ہے کہ غربت کے خاتمہ کے اقدامات پوری طرح ناکام ہوچکے ہیں۔
٭ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ شعبہ صحت میں بنیادی سہولتوں کو فروغ دیا گیا ہے، اور صحت عامہ کی خدمات میں بھی بہتری لائی گئی ہے، لیکن حقیقت میں زچہ اور بچہ کی صحت پر اب بھی کوئی توجہ نہیں دی جاتی۔ ہم ایک ایسی صورتحال کو کسی بھی طرح قبول نہیں کرسکتے جہاں بچے پیدا ہوتے ہی مر رہے ہوں۔ (ہزار بچوں میں سے 24.9 بچے پیدا ہوتے ہی مر جاتے ہیں) اور پیدائش کے بعد یعنی نومولود بچوں کے معاملے میں بتایا جاتا ہے کہ ہزار میں سے 35.2 بچے موت کا شکار ہوجاتے ہیں۔ اسی طرح پیدائش کے اندرون پانچ سال مرنے والے بچوں کی تعداد ہزار میں 41.9 ہے۔
٭ وہ بچے جو زندہ رہتے ہیں، ان کے لئے تغذیہ ایک بہت بڑا چیلنج ہے۔ مثال کے طور پر صحت بخش غذا سے محرومی کے نتیجہ میں 35.5% بچے ٹھٹھر جاتے ہیں۔ 19.3% ضائع ہوجاتے ہیں اور 32.1% بچے ناقص غذا کا شکار ہوجاتے ہیں۔ یہ بھی ایک حیرت کی بات ہے کہ 2020-21ء اور تعلیمی سال 2021-22ء بچوں کی تعلیم کیلئے تباہ کن ثابت ہوا۔ عالمی سطح پر اوسطاً 35 ہفتے اسکولس بند رکھے گئے اور ہمارے ملک میں 73 ہفتے اسکولوں کو بند رکھا گیا۔مالی تنگی اور نقل مکانی کے نتیجہ میں بچوں نے خانگی اسکولوں سے نکل کر سرکاری اسکولوں میں اپنے ناموں کا اندراج کروایا جہاں بچوں کو کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، لیکن افسوس وزیراعظم ، ریاستوں کے وزرائے اعلیٰ ، مرکزی و ریاستی حکومتوں نے ہمارے بچوں کی تعلیمی حالت زار اور صحت کے بارے میں ایک لفظ بھی نہیں کہا۔