مندر ۔ مسجد تنازعات ہنوز زندہ

   

شیکھر گپتا
ایودھیا رام جنم بھومی۔ بابری مسجد تنازعہ میں سپریم کورٹ کے پانچ ججس پر مشتمل بنچ نے جو متفقہ فیصلہ دیا اس کے بارے میں یہ یقین کرنے والوں کو اُس وقت زبردست جھٹکہ لگا اور وہ دہل کر رہ گئے جب وارانسی کی ایک تحت کی عدالت نے گیان واپی مسجد کے تعلق سے ایک حکم جاری کیا۔ بابری مسجد۔ رام جنم بھومی تنازعہ کے فیصلہ کے بعد لوگوں کو یقین ہوگیا تھا کہ ہندوستان میں اب لوگوں کو تقسیم کرنے والے مندر۔ مسجد تنازعات کا ہمیشہ ہمیشہ کے لئے خاتمہ ہو جائے گا۔ لیکن گیان واپی مسجد کے بارے میں وارانسی کی ضلعی عدالت نے جب یہ حکم دیا کہ آرکیا لوجیکل سروے آف انڈیا اس بات کا پتہ چلائے کہ آیا گیان واپی مسجد کے مقام پر کوئی مندر تو نہیں تھا۔ اس طرح برصغیر کی اہم ترین قرون وسطیٰ کی تاریخ کا بھوت ایسا لگتا ہے کہ ہنوز ہمارا تعاقب کررہا ہے اور وہ جلد دفن ہونے والا نہیں ہے۔
جج اشوتوش تیواری کی زیر قیادت عدالت نے اُس دیوانی درخواست کو سماعت کے لئے نہ صرف قبول کیا بلکہ مذکورہ حکم بھی جاری کیا۔ اُس درخواست میں عدالت سے التجا کی گئی تھی کہ آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا کو اس بات کا پتہ چلانے کی اجازت دی جائے کہ آیا گیان واپی مسجد کہیں کاشی وشواناتھ مندر کومنہدم کرکے اس پر تو تعمیر نہیں کی گئی۔ درخواست گذارنے اپنی درخواست میں یہ بھی سوال اٹھایا کہ آج جہاں گیان واپی مسجد ہے کہیں ماضی میں وہاں کاشی وشواناتھ مندر تو نہیں تھی۔ یہ بھی ایک حقیقت ہیکہ بابری مسجد ۔ رام جنم بھومی ملکیت مقدمہ کا فیصلہ اس انداز میں کیا گیا اس سے ہر کوئی پوری طرح مطمئن نہیں ہوا لیکن سپریم کورٹ نے اس مقدمہ کا فیصلہ متفقہ طور پر دیا اور ایسا لگتا ہیکہ تمام فریقین نے اس کا احترام کیا۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہیکہ موجودہ تنازعہ کی کوئی کس طرح تشریح کرسکتا ہے؟
سپریم کورٹ کے 5 ججس نے عبادتگاہوں سے متعلق (خصوصی دفعات) قانون 1991 کا نوٹ لیاتھا جس میں واضح طور پر کہا گیا کہ 15 اگست 1947 کو عبادتگاہوں کا جو مقام و موقف تھا ان کا ایک تاریخی آثار کے طور پر تحفظ کیا جائے گا تاہم اس قانون سے بابری مسجد۔ رام جنم بھومی ملکیت مقدمہ کو استثنیٰ دیا گیا کیونکہ اس کا مقدمہ برسوں سے جاری تھا۔ سپریم کورٹ نے اپنے حکم میں واضح طور پر کہہ دیا کہ عبادت گاہوں سے متعلق 1991 کا جو قانون ہے اس کے تحت عبادت گاہوں کا 1947 تک اور اس سے قبل جو موقف تھا وہ برقرار رہے گا سوائے بابری مسجد۔ رام جنم بھومی تنازعہ کے کیونکہ یہ تنازعہ عدالت میں زیر سماعت ہے (تھا) جس نے یہ بھی کہا تھا کہ قانون 1991 خاص طور پر مستقبل کے لئے بتایا گیا تاکہ مستقبل میں قوم دوبارہ بابری مسجد۔ رام جنم بھومی جیسے تنازعات میں نہ گھرجائے (اس تنازعہ نے ہزاروں ہندوستانیوں کی زندگیاں لی ہیں ملک کو زبردست مالی نقصان اور عالمی سطح پر بدنامی کا سامنا بھی کرنا پڑا)۔
ججس نے یہ بھی کہا تھا کہ اپنے اصولوں اور قوانین سے پیچھے نہ ہٹنا یا پہلوتہی نہ کرنا دراصل دستور کے بنیادی اصولوں کی بنیادی خصوصیت ہے جن میں سیکولرازم بھی ایک ہے اور اسی طرح کے نکات ہمارے سیکولر اقدار کی بنیادی خاصیت ہے۔ ججس کا یہ بھی کہنا تھا کہ ہمارا دستور ہماری تاریخ ہماری قوم کا مستقبل بیان کرتا ہے۔ ہمیں تاریخ سے واقف رہنا چاہئے۔ ججس نے اپنے تاریخی حکم میں یہ بھی کہا کہ ہمارے ملک نے 15 اگست 1947 کو آزادی حاصل کی اور وہ دن زخموں کو مندمل کرنے کا ایک عظیم لمحہ تھا۔ پھر ججس نے عبادتگاہوں سے متعلق قانون کے بارے میں اظہار خیال کرتے ہوئے اس حقیقت پر زور دیا کہ کسی کو بھی یہ حق حاصل نہیں تاریخ اور اس کی غلطیوں کا حال یا مستقبل کو دبانے کے لئے استعمال کرے۔ ہم ججس کے فیصلے کو صرف تین نکات کی شکل میں پیش کرتے ہیں۔
1۔ ہندوستان نے 15 اگست 1947 کو آزادی حاصل کی ایسے میں 15 اگست 1947 میں عبادت گاہوں کا جو موقف تھا وہ موقف برقرار رہے گا سوائے ایودھیا تنازعہ کے۔
-2 اگر مستقبل میں پارلیمنٹ اپنے طور پر اس قانون کو منسوخ یا اس میں ترمیم کا فیصلہ بھی کرتی ہے تو یہ فیصلہ اس کی راہ میں حائل ہوگا کیونکہ ججس نے پیچھے مڑکر نہ دیکھ کر جذبہ کو اہمیت دی ہے۔
-3 یہ پکار ہماری قوم کیلئے ہے ہماری حکومت، سیاسی جماعتوں اور مذہبی گروپوں کیلئے ہے کہ وہ ماضی سے ہٹ کر آگے بڑھیں۔
عدالت اور معزز ججس کے ان ریمارکس کے باعث ہی تمام بشمول راقم الحروف کو اس بات کا یقین تھا کہ مندروں، مسجدوں کو لیکر ملک بھر میں جو تنازعات پائے جاتے ہیں اپ دفن ہوچکے ہیں۔ ان کی آخری رسومات انجام دی جاچکی ہے اور ایودھیا احتجاج کے دوران برسوں سے جو نعرے ’’یہ تو کیول جھانکی ہے کاشی متھرا باقی ہے اور پھر تین نہیں ہیں تین ہزار‘‘ بلند ہو رہے تھے۔ وہ بھی اب ٹھنڈے پڑ جائیں گے لیکن موجودہ حالات اور وارانسی کی ضلعی عدالت کے جج کی جانب سے دیئے گئے حکم سے ایسا لگتا ہیکہ ہندوستان اب بھی مندر ۔ مسجد تنازعہ میں گھرا ہوا ہے۔ مذکورہ نعروں میں یہی کہا گیا کہ کاش متھرا میں جو مندر کے بازو مسجد ہے وہ دراصل ہندوؤں کے بھگوان کرشنا کا مقام پیدائش ہے اور مسلمانوں نے ماضی میں جن مندروں پر قبضہ کیا تھا ان منادر کو واپس لیا جائے گا اور جن مندروں کو توڑکر ان پر مساجد تعمیر کی گئیں ان کی تعداد تین ہزار ہے۔ تاہم ہمیں یقین تھا کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ ان تمام تخریبی نظریات کو ختم کردے گا۔ بہرحال موجودہ حالات میں وارانسی کورٹ کا حکم سپریم کورٹ کے فیصلہ کا منہ چڑا رہا ہے اب سوال یہ پیدا ہوتا ہیکہ آخر ہم کس سمت گامزن ہیں؟