منیکا اور ورون گاندھی بی جے پی قیادت سے ناراض

   

نیلم پانڈے
بی جے پی کی قومی مجلس عاملہ سے نکالے جانے کے بعد ورون گاندھی کا کہنا ہے کہ لکھیم پور کھیری تشدد کو ہندو مقابلہ سکھ جنگ میں تبدیل کرنے کی کوششیں کی جارہی ہے۔ واضح رہے کہ لکھیم پور کھیری میں کسانوں کو مرکزی مملکتی وزیر داخلہ اجئے مشرا کی گاڑیوں میں سے ایک نے کچل دیا تھا، جس کے نتیجہ میں 4 کی موت ہوئی۔ واقعہ کے فوری بعد ورون گاندھی نے ٹوئٹ کرتے ہوئے کسانوں کی موت کی مذمت کی تھی جس کی تائید ان کی ماں منیکا گاندھی نے کی۔ وہ ٹوئٹ ورون اور منیکا گاندھی کیلئے بہت مہنگا ثابت ہوا اور بی جے پی کی قومی مجلس عاملہ سے دونوں کو نکال دیا گیا۔ حال ہی میں منیکا گاندھی نے ایک بیان میں کہا کہ پارٹی کی قومی مجلس عاملہ میں انہیں شامل نہ کرنے سے ان کے رتبہ میں کوئی فرق نہیں آئے گا، تاہم ورون گاندھی نے ٹوئٹ کرتے ہوئے یہ کہا کہ لکھیم پور کھیری کو ہندو مقابلہ سکھ جنگ میں تبدیل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اس طرح کی سرگرمیوں اور بیانات سے خطرناک حالات پیدا ہوں گے اور ان زخموں کے تازہ ہونے کا باعث بنیں گے جو نسلوں تک بھر نہیں پائے تھے۔ ہمیں حقیر سیاسی فائدوں کیلئے اس طرح کے واقعات کو روکنا ہوگا اور ان تمام سے بالاتر قومی اتحاد کے بارے میں سوچنا ہوگا۔
یہ پہلی مرتبہ نہیں ہے کہ ورون نے 4 اکتوبر کو پیش آئے لکھیم پور کھیری کے واقعہ کا تذکرہ کیا ہو۔ اس واقعہ میں چار کسان اور چار دیگر افراد بشمول ایک صحافی مارا گیا تھا۔ 7 اکتوبر کو ورون گاندھی نے اس واقعہ کا ایک ویڈیو ٹوئٹر پر پوسٹ کیا جو دیکھتے ہی دیکھتے وائرل ہوگیا۔ انہوں نے ویڈیو کے ساتھ یہ بھی لکھا تھا کہ احتجاجی مظاہرین کو قتل کے ذریعہ خاموش نہیں کیا جاسکتا۔ بے قصور کسانوں کے خون کا حساب لینے کیلئے جواب دہی کا عمل شروع کیا جانا چاہئے اور ملزمین کو کیفرکردار تک پہنچانا چاہئے اس سے قبل کہ ہر کسان کے ذہن میں برہمی پھیل جائے، تاہم منیکا گاندھی اور ورون گاندھی نے انہیں 80 رکنی قومی مجلس عاملہ سے نکالے جانے پر کوئی تبصرہ یا شدید ردعمل نہیں کیا۔ ورون گاندھی نے ہر مرتبہ کسانوں کی تائید و حمایت کی۔ وہ چند ایک بی جے پی ارکان پارلیمان میں شامل ہیں جو نہ صرف لکھیم پور کھیری میں کسانوں کے احتجاج کی تائید کرتے رہے بلکہ نیشکر کی قیمتوں میں اضافہ سے متعلق کسانوں کے مطالبہ کی بھی ورون گاندھی کے ہمراہ تائید کی۔ ورون نے چیف منسٹر اترپردیش یوگی ادتیہ ناتھ پر زور دیا تھا کہ وہ نیشکر کی قیمت بڑھاکر 400 روپئے فی کنٹل کرے۔ اس سے پہلے کے ٹوئٹ میں ورون گاندھی نے مظفر نگر میں منعقد کی گئی کسانوں کی مہا پنچایت کے بارے میں کہا تھا کہ یہ احتجاجی کسان، ہمارے جسم کا حصے ہیں اور ایسے میں اُن کے درد و الم کو محسوس کرنے اور ان کے ساتھ مذاکرات کی ضرورت ہے۔ ذرائع کے مطابق ورون گاندھی پارٹی کی جانب سے مسلسل نظرانداز کئے جانے کے باعث ناخوش ہیں۔ انہیں اس بات کا بھی افسوس ہے کہ مودی حکومت کی حالیہ کابینی ردوبدل میں بھی انہیں نظرانداز کردیا گیا۔ پارٹی میں خود کئی ایسے قائدین ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ ورون گاندھی کی برہمی اور کسانوں کی ہمدردی و حمایت میں بیانات دراصل جولائی میں کی گئی مرکزی وزارت میں ردوبدل کے دوران انہیں شامل نہ کرنا ہے۔ بی جے پی کے ایک سینئر لیڈر کا کہنا ہے کہ یہ کوئی پہلی مرتبہ نہیں کہ ورون گاندھی نے اس قسم کے بیانات دیئے ہوں، لیکن ایک بات ضرور ہے کہ پارٹی کی مجلس عاملہ سے انہیں نکال باہر کرنا آخری دھکہ ہے اور ہوسکتا ہے کہ وہ کوئی اہم قدم اٹھا سکتے ہیں۔ ورون گاندھی نے احتجاجی کسانوں کی تائید ایک ایسے وقت کی ہے جبکہ اترپردیش اسمبلی کے انتخابات ہونے والے ہیں جہاں بی جے پی اقتدار میں واپسی کی اُمید رکھتی ہے۔