مودت اہل بیت

   

حضرت ابن عباس رضی اﷲ عنہما فرماتے ہیں جب رسول اللہ صلی اﷲ علیہ وآلہٖ و سلم مدینہ طیبہ رونق افروز ہوئے تو انصار نے دیکھا کہ آپ کے ذمہ مصارف زیادہ ہیں اور مال کچھ بھی نہیں تب آپس میں مشورہ کیا اور حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے حقوق و احسانات یاد کرکے حضور اقدس صلی اﷲ علیہ وآلہٖ و سلم کی خدمت میں پیش کرنے کے لئے بہت سارا مال جمع کیا اور اس کو لے کر خدمت اقدس میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ حضور صلی اﷲ علیہ وآلہٖ و سلم کی بدولت ہمیں ہدایت ہوئی ، ہم نے گمراہی سے نجات پائی ، ہم دیکھتے ہیں کہ حضور کے مصارف بہت زیادہ ہیں اس لئے ہم یہ مال خدمت میں نذر کے لئے لائے ہیں ۔ قبول فرماکر ہماری عزت افزائی کی جائے ۔ اس پر یہ آیت کریمہ نازل ہوئی یعنی ’’اے محبوب آپ فرما دیجئے میں اس پر تم سے کچھ اجرت نہیں مانگتامگر قرابت کی محبت ‘‘ (۲۳؍۴۲) گویا اس ارشاد کے ذریعہ حق تعالیٰ نے مسلمانوں پر اپنے محبوب کے قرابت داروں یعنی اہلبیت کی مودت و محبت لازم فرمادی ہے ۔ حضرت سعید بن جبیر رضی اﷲ عنہ سے مروی ہے کہ قرابت والوں سے مراد حضور سید عالم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ و سلم کی آل پاک ہے ( بخاری) مسئلہ : اہل قرابت سے کون کون مراد ہیں اس میں کئی قول ہیں ، ایک تو یہ کہ مراد اس سے حضرت علی و حضرت فاطمہ و حسنین کریمین (رضی اﷲ عنہم ) ہیں ایک قول یہ ہے کہ آل علی و آل عقیل و آل جعفر و آل عباس مراد ہیں اور ایک قول یہ ہے کہ حضور صلی اﷲ علیہ وآلہٖ و سلم کے وہ اقارب مراد ہیں جن پر صدقہ حرام ہے اور وہ مخلصین بنی ہاشم و بنی مطلب ہیں ۔ حضور کی ازواج حضور کے اہل بیت میں داخل ہیں (کنزالایمان)
اسی طرح آیت تطہیر کے نزول کے وقت آپ نے آواز دی ’’علی آؤ ، فاطمہ تم بھی آؤ اور حسن و حسین کو بھی ساتھ لیتی آؤ ‘‘ جب سب حاضر ہوگئے تو حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ و سلم نے چاروں کو ردائے مبارک میں چھپا لیا اور دعا فرمائی ’’ یا اللہ ! یہ میرے اہلبیت ہیں تو ان سے ہر آلودگی کو دور فرمادے اور انہیں خوب پاکیزہ فرمادے‘‘۔ حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اﷲ علیہ وآلہٖ و سلم نے حضرت علی کرم اﷲ وجہہ ، سیدہ فاطمہ زہرا رضی اﷲ عنہا اور حضرات حسن و حسین رضی اﷲ عنہما کی طرف دیکھ کر فرمایا ’’ہماری اس سے لڑائی ہے جو ان سے لڑے اور اس سے صلح ہے جو ان سے صلح رکھے گا‘‘۔