مودی جی کی ماں کی سالگرہ اور شہیدوں کی مائیں

   

محمد ریاض احمد
ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد قدرت کا اگر کوئی بہترین تحفہ ہے تو وہ ’’ماں‘‘ اور پھر ’’باپ‘‘ہے۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ عورت اُس وقت مکمل ہوتی ہے جب وہ ماں بنتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اِنسان کے حسن سلوک کی سب سے زیادہ حقدار ’’ماں ‘‘کو قرار دیا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ اِرشاد فرماتے ہوئے کہ ’’ماں کے قدموں کے نیچے جنت ہے‘‘، عورت کی عظمت کو چار چاند لگادیئے اور ساری انسانیت کو یہ درس دیا کہ بیٹیوں کی قدر کرو، ان سے محبت کرو، بہنوں کو ٹوٹ کر چاہو، ان سے صلہ رحمی کرو، ان کے ساتھ انصاف کرو، بیویوں سے بہترین سلوک روا رکھو، ان کی ایک بات پسند نہ آئے تو اُن کی دوسری اچھائیوں کو دیکھو، غرض آپؐ نے دُنیا کو صنف نازک کی عظمتوں کا قائل کروایا اور یہ حقیقت میں بتادیا کہ عورت ماں بھی ہے جس کی گود انسان کی پہلی درس گاہ ہوتی ہے۔ بہرحال آج ہم یہاں ماں کی بات کرتے ہیں جو اپنی اولاد کے ہر درد و اَلم کا مداوا، ہر زخم کا مرہم ، ہر مرض کا علاج، ہر مسکراہٹ کے پیچھے چھپا راز ہے ، وہ اپنی اولاد کی ہر ترقی ، کامیابی و کامرانی، اُن کی شخصیت سازی، ذہن سازی اور پراعتمادی کی ذمہ دار ہوتی ہے۔ باپ اولاد کا ’بھروسہ‘ اور ماں ان کی ’اُمید‘ ہوتی ہے۔ ماں ہمیں اپنی گود میں کھلانے ، سلانے ، دلجوئی کرنے اور سینے سے لگائے قطرہ قطرہ زندگی کے گھونٹ پلانے سے پہلے اپنے پیٹ میں 282 دن بڑے احتیاط سے سنبھالے رکھتی ہے۔ وہ ہر لمحہ چوکس رہتی ہے اور یہ سوچ کر ایک ایک قدم آگے بڑھاتی ہے کہ کہیں نقل و حرکت اور ہلنے جلنے سے بھی اُس کے پیٹ میں پرورش پارہی معصوم جان کو کوئی گزند نہ پہنچے۔ ماں کے بارے میں اس تمہید کا مقصد آپ کو ہمارے وزیراعظم نریندر دامودر داس مودی کے ساتھ ساتھ اُن کے بھکتوں کو یہ بتانا ہے کہ ماں تو ماں ہوتی ہے، چاہے وہ وزیراعظم نریندر مودی کی ماں ہو یا جھارکھنڈ کے رانچی میں محسن انسانیت ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرنے والے کمسن بچوں مدثر اور ساحل کی مائیں ہوں، اپنی اولاد کی تئیں ان کے جذبات، احساسات، ایثار و خلوص، ہمدردی، محبت و مروت اور مامتا ایک ہی ہوتی ہے۔ چاہے ماؤں کا تعلق کسی بھی مذہب سے کیوں نہ ہو۔ ویسے بھی ماں کی ممتا کا کوئی مذہب نہیں ہوتا اور ہر ماں یہی چاہتی ہے کہ اس کا بیٹا صحت مند و تندرست رہے، خوش و خرم رہے۔ لوگ اس کی عزت کریں، دولت، اس کے قدم چومے، شہرت اس کا مقدر بنے، اس کے بیٹے کی عمر و اقبال میں ترقی ہو، اس کے چہرہ پر کبھی غم و تکلیف کے آثار تک نہ آئیں بلکہ ہونٹوں پر ہمیشہ مسکراہٹیں بکھری رہیں۔ ماں کی عظمت کا ذکر اس لئے کررہا ہوں کہ 18 جون کو 71 سالہ وزیراعظم نریندر مودی کی ماں ہیرابین مودی اپنی عمر کے 99 سال مکمل کرکے 100 ویں سال میں داخل ہوئیں۔ گاندھی نگر میں مودی جی کے بھائی اور بھتیجیوں کے گھر میں ان کی 99 ویں سالگرہ منائی گئی۔ مودی نے اس موقع پر اپنی ماں کا آشیرواد لیا۔ اُن کے پیر چھوئے ،اُن کے ساتھ کچھ وقت گذارا، اُن کے ہاتھوں کی بنی مٹھائی سے بھی لطف اندوز ہوئے۔ واضح رہے کہ مودی جی نے اپنی والدہ کی پیدائش 1922ء لکھی ہے جبکہ ویکیپیڈیا میں مودی جی کے بارے میں جو تفصیلات ہیں، اس میں ان کے والد دامودر داس مولچند مودی کی تاریخ پیدائش 1915ء اور تاریخ دیہانت 1989ء بتائی گئی ہے جبکہ ماں ہیرابین کی سنہ پیدائش 1920ء پایا گیا ہے۔ خیر! خوشی کی بات ہے کہ وزیراعظم کی ماں اپنی عمر کے 100 ویں سال میں داخل ہوئیں۔ یہ اولاد کیلئے بہت خوشی کی گھڑی ہوتی ہے، آپ کو بتادیں کہ بی جے پی ارکان، اسمبلی ارکان پارلیمنٹ یہاں تک کہ بی جے پی زیرقیادت ریاستوں کے چیف منسٹرس اکثر و بیشتر مسلمانوں کی بڑھتی آبادی پر تشویش ظاہر کرتے ہوئے انہیں ملک کیلئے خطرہ قرار دیتے ہیں جبکہ ہمارے وزیراعظم خود اپنے ماں باپ کی 6 اولادوں میں سے تیسرے نمبر پر ہیں۔ ہاں! ہم بات کررہے تھے مودی جی کی ماں کی جن کی 99 ویں سالگرہ پر وزیراعظم نے ایک فرماں بردار بیٹے کی حیثیت سے اپنی ماں کی شان میں ایک بلاگ لکھا جس میں بہت ہی خوبصورت انداز میں انہوں نے اپنی ماں کی شخصیت ، اُن کی منکسرالمزاجی، کفایت شعاری، بچپن میں اُن کی غربت زدہ زندگی، کم عمری میں ہی ماں کی ممتا، اس کی گود سے محرومی اور شادی کے بعد گھر کی بڑی بہو بن کر سسرال آئے وہاں سب کی خدمت کرنے پھر شوہر اور 6 بچوں کے ساتھ ایک کمرہ پر مشتمل مٹی کے گھر میں قیام کرنے ، اس گھر میں کھڑکی تک نہ ہونے، اپنے بچوں اور شوہر کی مدد کیلئے پڑوسیوں کے گھروں میں برتن دھونے جیسے واقعات بیان کرتے ہوئے یہ بھی بتایا کہ ان کے گھر میں سالگرہ منانے کا کوئی رواج نہیں تھا۔ اب بھائیوں، بہنوں کے بچوں نے سالگرہ تقاریب منانا شروع کی۔ مودی جی نے اپنے بلاگ میں ہیرابین مودی کے اوصاف اسی انداز میں بیان کئے جیسا کہ ہر بیٹا اپنی ماں کے بارے میں بتاتا ہے۔ دوسرے بیٹوں کی طرح انہوں نے اپنی ماں کو دنیا کی سب سے اچھی ماں کے طور پر پیش کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی۔ اپنی ماں کے تئیں مودی جی کی محبت قابل تعریف ہے۔ انہوں نے اپنے بلاگ میں یہ بھی لکھا کہ جب وہ چھوٹے تھے، ان کے والد کے ایک مسلم دوست جو قریبی گاؤں میں رہتے تھے، اچانک انتقال کرگئے جس پر والد نے ان کے لڑکے ’’عباس‘‘ کو جو طالب علم تھے، اپنے گھر لایا تاہم مودی کے بھائی پرہلاد مودی کا کہنا ہے کہ عباس دراصل ان کے بھائی پنکج مودی کے دوست تھے۔ مودی نے اپنے بلاگ میں لکھا کہ عباس کے ساتھ ان کی ماں اپنے بچوں کی طرح سلوک روا رکھتی تھیں۔ یہاں تک کہ عید کے موقع پر عباس کیلئے خصوصی ڈشیس تیار ہوتیں اور عباس کو گھر میں نماز ادا کرنے کی اجازت تھی۔ مودی جی کے بلاگ سے یہ اندازہ تو ہوا کہ ان کا گھرانہ جیسا کہ انہوں نے خود لکھا کہ اس میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی پائی جاتی تھی، انسانیت میں یقین رکھنے والا ہے۔ جہاں تک عباس کا تعلق ہے، وزیراعظم نے 2014ء میں اقتدار حاصل کرنے کے بعد پہلی مرتبہ عباس کا ذکر کیا لیکن افسوس کے آج ملک میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو اس قدر نقصان پہنچایا گیا کہ کوئی دامودر داس مولچند مودی۔ ہیرا بین مودی، پنکج مودی نظر نہیں آتے جنہوں نے کسی عباس کو اپنے بچوں اور بھائی کی طرح گھر میں رکھ کر اس کا ہر طرح سے خیال رکھا تھا۔ ہاں ہم بات کررہے تھے کہ مودی جی کے بلاگ کی جو انہوں نے اپنی ماں کی سالگرہ کے موقع پر لکھا اسے پڑھنے والے ، مودی جی کی اپنی ماں کے تئیں جذبات و احساسات سے ضرور متاثر ہوئے ہوں گے لیکن ان کے ذہنوں میں یہ بھی سوال اُٹھا ہوگا کہ اپنی ماں سے اس قدر محبت کرنے والے مودی جی کو کیا کبھی ہریانہ کے حافظ جنید، جھارکھنڈ کے امتیاز خاں، مظلوم انصاری، تبریز انصاری، علیم الدین، دادری کے محمد اخلاق، دہلی کے فیضان، رانچی کے مدثر، ساحل اور یوپی کے مخالف سی اے اے احتجاجی مظاہروں کے دوران شہید ہونے والے مسلم نوجوانوں اور ملک کے مختلف مقامات پر جام شہادت نوش کرنے والے مسلم لڑکوں یہاں تک کہ روہت ویمولا، ہاتھرس، اُناؤ اور یوپی کے دیگر مقامات پر اپنی عصمتوں اور زندگیوں سے محروم ہونے والی دلت بیٹیوں کی ماؤں کی تکلیف ان کے درد و الم کا احساس ہوا ہوگا جس طرح انہیں اپنی ماں کی خوشیوں کا خیال ہے۔ کیا کبھی ان کے ذہن و دل میں مسلم و دلت نوجوانوں و لڑکیوں کی تباہی و بربادی ان کی زندگیوں کے خاتمہ پر ماؤں کو ہونے والی تکلیف کا خیال آیا ہوگا ؟ کیا کبھی وزیراعظم کے دل میں جے این یو کے لاپتہ طالب علم نجیب احمد کی والدہ فاطمہ نفیس کے تئیں ہمدردی پیدا ہوئی جو 2016ء میں اپنے نورِ نظر کے لاپتہ ہونے کے بعد سے چیخ رہی ہے، چلا رہی ہے، آنسو بہا رہی ہیں، در در پھر کر انصاف مانگ رہی ہے۔ ’’نجیب کو واپس لاؤ‘‘ کے نعرے لگا رہی ہے۔ حیدرآباد سنٹرل یونیورسٹی کے امرطالب علم روہت ویمولا کی ماں رادھیکا ویمولا کا بھی یہی حال ہے۔ ہریانہ کے 17 سالہ حافظ جنید کی شہادت عین چاند رات کو (جون 2017ء) ہوتی ہے، اس کی ماں سائرہ آج بھی روتی رہتی ہے، وہ سوال کرتی ہے کہ میرے بیٹے نے جاتے ہوئے کہا تھا کہ ’’امی جان میں کچھ بڑا کام کروں گا‘‘، آج تک اس غزوہ ماں کو انصاف نہیں ملا، کیا مودی نے ان کے بارے میں کبھی سوچا ہوگا؟ دادری کے محمد اخلاق کی ماں اصغری بھی تڑپ رہی ہے اور کوئی اپنی ماں کی سالگرہ پر خوش ہے۔ اسی طرح جھارکھنڈ میں 18 مارچ 2020 ء کا 30 سالہ مظلوم انصاری اور 11 سالہ امتیاز خاں کو گاؤ رکھشکوں نے مار مارکر برا حال کیا اور پھر درختوں پر لٹکا دیا۔ امتیاز کی ماں نجمہ بی بی ہر لمحہ اپنے بیٹے کو یاد کرکے روتی ہے۔ امتیاز کو تو اس کے باپ آزاد خاں کی نظروں کے سامنے قتل کیا گیا لیکن وہ بے بس اور مجبور تھا۔ کچھ نہ کرسکا کیونکہ اگر وہ تھوڑی سے بھی آواز کرتا تو اسے بھی قتل کردیا جاتا۔ رانچی کے مدثر عالم کی عمر صرف 14 سال تھی اور وہ دسویں کے نتائج کا منتظر تھا، اس کے سَر میں گولیاں ماری گئیں۔ جب ایس ایس سی کے نتائج آئے تو پتہ چلا کہ اس نے فرسٹ ڈیویژن میں کامیابی حاصل کی۔ 66.6% نمبرات حاصل کئے۔ اس شہید کی ماں نکہت پروین کا بھی برا حال ہے۔ یوپی پولیس کی حراست میں مسلم لڑکوں کو ایک درندہ صفت پولیس اہلکار بے تحاشہ پیٹ رہا ہے، ان کی مائیں اپنے بچوں کے جسموں پر پڑنے والی لاٹھیوں پر تڑپ اٹھیں، کیا وزیراعظم کو ان مظلوم نوجوانوں کی روتی ماؤں کا کبھی خیال بھی آیا؟ بہرحال مودی جی کو ان کی ماں کی سالگرہ مبارک۔ کاش! انہیں دوسروں کی ماؤں کے درد، ان کی تڑپ کا بھی احساس ہوتا اور کاش! ہندوستان میں پھر وہی ماحول واپس آتا جہاں کسی مودی نے اپنے مسلم دوست کے بیٹے کو گھر میں رکھ کر اس کا پورا پورا خیال رکھا تھا۔
mriyaz2002@yahoo.com