مودی حکومت اور سی بی آئی

   

جب بھی اس کی نظر ملی ہم سے
شاخ گل میں لچک سی ہوتی ہے
مودی حکومت اور سی بی آئی
سنٹرل بیوریو آف انوسٹی گیشن (سی بی آئی) ملک کی 55 سالہ قدیم تحقیقاتی ایجنسی ہے جو وزیراعظم ہند کے راست کنٹرول میں ہوتی ہے۔ اس کے قیام کے بعد سے اب تک اس ایجنسی کی اپنی علحدہ شناخت و افادیت تھی لیکن حالیہ دنوں سی بی آئی محض حکمراں پارٹی کی کٹھ پتلی یا بند پنجرے کا طوطا کہلانے لگی ہے۔ سی بی آئی کے ڈائرکٹرس اور دیگر اعلیٰ عہدیداروں کی آپسی رسہ کشی، بدعنوانی، بالادستی کی لڑائی نے ادارہ کو بدنام کیا۔ اس پر مودی حکومت کی بیجا مداخلت نے ایجنسی کی ساکھ کو کمزور کردیا ہے۔ اب حکومت نے آلوک ورما کے بعد راکیش استھانہ کو بھی سی بی آئی کی ذمہ داری سے ہٹا کر ان کا شہری ہوا بازی میں تبادلہ کردیا ہے۔ مودی کابینہ کے فیصلے دستوری اداروں کی بقاء کے لئے خطرہ بنتے جارہے ہیں۔ راکیش استھانہ کے ساتھ دیگر 4 سی بی آئی افسروں کی ذمہ داری بھی گھٹا دی گئی ہے۔ سی بی آئی کے دیگر عہدیداروں میں ارون کمار شرما، ڈی آئی جی منیش کمار مہتا اور ایس پی جنیت جے ٹاکنورے ہیں۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہیکہ راکیش استھانہ کا تبادلہ وزیراعظم نریندر مودی زیرقیادت کابینی تقرراتی کمیٹی کی ترجیح تھی یا پھر اس کابینی کمیٹی نے جن دیگر عہدیداروں کو بھی ہٹا دیا ہے یہ بھی تقرراتی کمیٹی کا فیصلہ ہے۔ یہ غیرواضح ہے۔ سی پی آئی کے درجہ دوم کے متنازعہ عہدیدار کا اخراج جن کے خلاف گذشتہ اکٹوبر کو خود سی بی آئی نے جبراً وصولی کیس میں ایف آئی آر درج کروایا تھا۔ ان کے ساتھ دیگر عہدیداروں پر بھی عتاب نازل کردیا گیا۔ مودی حکومت نے ان عہدیداروں کی اصل شکایت کی جانب توجہ ہی نہیں دی یا پھر وہ اس شکایت کو نظرانداز کرنے میں اپنی داخلی خرابیوں پر پردہ ڈالنے کی کوشش کی کیونکہ گذشتہ سال نومبر میں سی بی آئی سے برطرف آفیسروں میں سے ایک آفیسر سنہا نے سپریم کورٹ میں داخل کردہ درخواست میں الزام عائد کیا تھا کہ سی بی آئی کے تحقیقاتی کاموں میں قومی سلامتی مشیر اجیت دیول مداخلت کررہے ہیں۔ اجیت دیول نے اس مداخلت بیجا کے ذریعہ سی بی آئی کی تعیناتی ٹیم کو ہدایت دی تھی کہ وہ راکیش استھانہ اور دیویندر شرما کے موبائیل فون اکٹھا نہ کریں جو استھانہ کے خلاف تحقیقات میں یہ ایک اہم لمحہ تھا لیکن سنہا کا سی بی آئی کے کارگذار ڈائرکٹر ناگیشور راؤ نے تبادلہ کردیا۔ شرما کو آلوک ورما کا حلیف مانا جاتا ہے لیکن انہیں بھی تبدیل کردیا گیا۔ اب تک یہی سمجھا جارہا تھا کہ راکیش استھانہ مودی سے قربت رکھتے ہیں اور چیف منسٹر گجرات کے دورے سے ہی وہ مودی کے قریب ہیں اس لئے انہیں سی بی آئی کا کارگذار ڈائرکٹر اس وقت مقرر کیا گیا جب انیل سنہا ڈسمبر 2016ء کو ڈائرکٹر کی حیثیت سے ریٹائرڈ ہوئے تھے۔ ان کے تقرر کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا۔ حکومت کی خاص ایجنسیوں میں ہی اگر سیاسی مداخلت بڑھ جائے تو خرابیاں پیدا ہوجاتی ہیں۔ حکومت نے سی بی آئی کے اختیارات پر آنچ آنے والی کارروائیاں کرکے اس ایجنسی کی شبیہہ کو مسخ کردیا ہے۔ سی بی آئی کا ایک ریکارڈ رہا ہے کہ اس نے ملک کے بڑے سے بڑے کیسوں سے نمٹا ہے مگر جب سے ایجنسی کے وجود کو سیاسی مقصد براری یا سیاسی حریفوں کو تنگ کرنے کیلئے استعمال کیا جانے لگا تو اس ایجنسی پر سے اعتبار اٹھنے لگا۔ سی بی آئی میں ہونے والی ان تبدیلیوں پر حکمراں پارٹی بی جے پی اور اپوزیشن کانگریس کے درمیان لفظی جنگ سے مسئلہ کا حل نہیں نکلے گا۔ ایجنسی میں پیشہ وارانہ اقدار اور اصول کو بالائے طاق رکھ کر کام کرنے سے خراب نتائج ہی سامنے آئیں گے۔ لہٰذا سی بی آئی کے وقار کو بحال کرنے کیلئے ضروری ہیکہ پارلیمنٹ کے اندر جامع قانون بنایا جائے اور اس ادارہ کو خودمختار بنانے کا فیصلہ کیا جائے۔ سی بی آئی کو سیاسی آقاؤں کے چنگل سے آزاد کرنا ضروری ہے جس کے بعد ہی ایجنسی کی ماضی کی عظمت بحال ہوگی۔
ہندوستان کی ترقی پذیر معیشت
ہندوستان کی آزادی کے 70 سال بعد بھی معیشت میں ہنوز ترقی کی راہیں تلاش کی جارہی ہیں۔ دنیا میں تیزی سے ترقی کرنے والا بڑا معاشی ملک بننے کی کوشش کے باوجود ہندوستان کو امریکہ اور چین سے سخت مسابقت کرنی پڑرہی ہے۔ 2014ء میں بی جے پی نے نریندر مودی کو وزارت عظمیٰ کے امیدوار کی حیثیت سے پیش کرکے اچھے دن کا نعرہ دیا تھا اور مودی کے سینے کو 56 انچ کا قرار دیا تھا لیکن معاشی سطح پر ہندوستان کا سینہ 56 انچ کا نہیںہوسکا۔ ہندوستان کی معیشت کے مقابل امریکہ کی معیشت ہنوز 7 گنا زیادہ ہے اور چین کی اندرون ملک مجموعی پیداوار 14 فیصد ہے جبکہ 1998ء میں ہندوستان کی معیشت کا فیصد چین کے مساوی ہونے کا ادعا کیا جاتا تھا۔ 20 سال بعد چین کی معیشت کا جائزہ لیں تو اندازہ ہوگا کہ اس نے اب 370 فیصد کی سب سے بڑی چھلانگ لگائی ہے۔ چار دہوں سے چین کے اندر سرمایہ کاری میں بھی اضافہ ہوا ہے اس کے برعکس ہندوستان میں سرمایہ کاری کا فیصد کم ہے۔ ہر سال مرکزی بجٹ میں حکومت کی جانب سے ملک کی معیشت کی خوشنما تصویر پیش کی جاتی ہے مگر اس سال عام انتخابات کے پیش نظر مودی حکومت کو ایک بہانہ مل گیا ہے کہ وہ بجٹ کو علی الحساب طریقہ سے پیش کرکے اپنی کارکردگی کی خرابیوں کو پوشیدہ رکھ سکے۔ حکومت کے معاشی اداروں نے ہندوستانی معیشت میں 7.5 فیصد کے اضافہ کی توقع ظاہر کی ہے لیکن عالمی سطح پر خام تیل کی قیمتوں میں اضافہ امریکی ڈالر میں استحکام اور ہندوستان میں جی ایس ٹی شرحوں پر متواتر نظرثانی کے باعث اندرون ملک معیشت غیریقینی کا شکار ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔