مودی حکومت کے رپورٹ کارڈ پر ’ناکامی‘ کی مہر

   

پی چدمبرم
میں یہ تحریر دہلی سے لکھ رہا ہوں، جو دنیا کے نہایت آلودہ شہروں میں سے ہے۔ ابھی موسم سرما جاری ہے۔ وہ موسم بہار جس کا میں نے گزشتہ ہفتے تذکرہ کیا تھا، ہنوز کئی ہفتے دور ہے۔ تمام پانچوں ریاستوں میں جہاں حال میں انتخابات منعقد ہوئے، اپنی ناکامی کے باوجود بی جے پی کی قیادت ہنوز جھگڑالو، پارلیمنٹ کو حقارت سے دیکھنے اور ادارہ جات سے نفرت کرنے والی ہے۔ یکم جنوری 2019ء کو ’اے این آئی‘ کو دیئے گئے انٹرویو میں وزیراعظم مودی نے کہا، ’’کسی نے بھی بی جے پی کیلئے تلنگانہ اور میزورم میں کوئی موقع نہیں بتایا۔ چھتیس گڑھ میں قطعی خط اعتماد دیا گیا … بی جے پی ہار گئی۔ لیکن دو ریاستوں (راجستھان اور مدھیہ پردیش) میں معلق اسمبلی وجود میں آئی۔‘‘
فیصلہ کن عوامی رائے

معلق اسمبلی کا مطلب ہوتا ہے کہ کوئی بھی پارٹی حکومت تشکیل دینے کے موقف میں نہیں ہے۔ تین ریاستوں میں فی الواقعی صرف دو پارٹیوں میں مقابلہ رہا۔ نتائج کے بعد وہ پارٹی جسے تشکیل حکومت کا قطعی طور پر کوئی موقع نہ تھا، بی جے پی رہی؛ موقع کی حامل پارٹی کانگریس رہی اور اس نے تینوں ریاستوں میں حکومت بنائی جبکہ عملی طور پر اس کی راہ میں کوئی رکاوٹیں نہیں آئیں۔ میں اسے فیصلہ کن عوامی رائے کہوں گا، نہ کہ معلق اسمبلی۔ چھتیس گڑھ میں بی جے پی نے 34 نشستیں ہارے (49 سے 15 ہوگئے)، مدھیہ پردیش میں 56 سیٹیں (165 سے 109) اور راجستھان میں 90 نشستیں (163 سے 73) کھو دیئے۔ یہ بی جے پی کو فیصلہ کن طور پر مسترد کرنا ہوا۔ مسٹر نریندر مودی کے انتخابی نتائج کے تجزیہ سے چند باتیں اخذ کی جاسکتی ہیں۔ مثال کے طور پر، آر ایس ایس کا داخلی نقطہ نظر ہے کہ یہ بڑی شکست ہے؛ لہٰذا آر ایس ایس ہندتوا کے انجن کو چالو کرتے ہوئے ایودھیا میں رام مندر کی تعمیر کیلئے آرڈیننس لانے کا مطالبہ کررہا ہے، حالانکہ سپریم کورٹ میں کئی اپیلیں زیردوراں ہیں۔ مودی کے انٹرویو کو میڈیا کی جانب سے اور جس طرح عوام نے دیکھا ہے، اُن کی میعاد کا اختتامی رپورٹ کارڈ قرار دیا گیا ہے۔ یہ دو پہلوؤں سے اہم ہے؛ جو کچھ وزیراعظم نے کہا اور جو کچھ انھوں نے نہیں کہا۔

اشارے اور غلطیاں
آئیے وہ موضوعات سے شروعات کریں جن پر وزیراعظم نے بات کی: نوٹ بندی، جی ایس ٹی، سرجیکل اسٹرائیک، لنچنگ، ڈاکٹر ارجیت پٹیل کا استعفیٰ، سبری ملا، تین طلاق بل، رافیل، زرعی قرض کی معافی اور مہاگٹھ بندھن (اپوزیشن پارٹیوں کا اتحاد)۔ اپنی پہچان کے عین مطابق انھوں نے کسی غلطی کا اعتراف نہیں کیا، انھوں نے اعادہ کیا کہ اُن کی حکومت نے ہر کام درست کیا ہے، اور ’’مودی تو بس عوامی محبت اور آشیرواد کا اظہار ہے۔‘‘ میں ایسے اشخاص سے چوکنا رہتا ہوں جو اپنی غلطیوں کا اعتراف نہیں کرتے ہیں۔ نوٹ بندی بہت بڑی غلطی ہوئی، جی ایس ٹی میں گہرا نقص رہا اور اسے عمل آوری میں خامی کی وجہ سے ابتر بنادیا گیا، سرجیکل اسٹرائیک کوئی منفرد اقدام نہیں اور نا ہی اس نے دراندازی یا عسکریت پسندی کا خاتمہ کیا، تین طلاق بل بلاوجہ کا عمل اور جانبداری پر مبنی ہے، رافیل معاملت نے ایئرفورس اور ہندوستان ایروناٹکس لمیٹیڈ دونوں کو دھوکہ دیا، اور غلط پالیسیوں کے نتیجے میں زرعی قرض کی معافی ضروری ہوچکی ہے۔ عوام اس تجزیے سے متفق معلوم ہوتے ہیں لیکن وزیراعظم نے برعکس رائے پیش کی ہے۔
اب، آئیے وہ موضوعات کو پیش کریں جن کے بارے میں وزیراعظم نے بات نہیں کی: بڑھتی بیروزگاری، کسانوں کی پریشانی اور خودکشی کے واقعات، خواتین کی سکیورٹی، خودساختہ نگران گروپس، قانون کی پکڑ سے بڑھتی چھوٹ، جموں و کشمیر، معیشت، ایم ایس ایم ایز کا بند ہونا، رکے ہوئے پراجکٹس، ڈوبی ہوئی کمپنیاں، آمدنی اور مالی خسارہ کے بجٹ نشانوں کے حصول میں امکانی ناکامی، اور حکومت سے ممتاز ماہرین معاشیات کی علحدگی۔ مجھے ایسا تاثر ہوا کہ وزیراعظم اُس شخص کی مانند ہیں جو صرف عقبی نظارہ والے شیشے کو دیکھتے ہوئے کار چلا رہا ہے۔ انھوں نے ماضی کے تعلق سے بات کی اور مستقبل کے تعلق سے کچھ نہیں کہا۔ وہ آگے دیکھنے سے قاصر ہیں، اور اُن کے پاس عوام کو پیش کرنے کیلئے ایسا کچھ
نہیں جو اُن کے حوصلے بلند کرے یا معیشت کو جہت عطا کرے۔ رپورٹ کارڈ کے ہر صفحہ پر ’فیل‘ (ناکام) لکھا ہوا ہے۔

مایوسانہ کوششیں؟
نئے سال میں کچھ بھی بدلا ہوا نہیں معلوم ہوتا ہے۔ 2 جنوری کو لوک سبھا میں رافیل معاملت کے بارے میں پُرشور مباحث ہوئے، وزیراعظم غیرحاضر تھے، وزیر دفاع تماشائی معلوم ہوئیں، اور وزیر فینانس ارون جیٹلی (ہر بات کیلئے دستیاب شخص) نے کلیدی سوالات میں سے کسی کا بھی جواب نہیں دیا (میرا کالم ملاحظہ کیجئے ’اُن کو وجوہات چاہئیں، یہاں 10 پیش ہیں‘ انڈین اکسپریس، 7 اکٹوبر 2018ئ)۔ 3 جنوری کو لوک سبھا میں بحث ناکام ہوگئی۔
موسم بہار کے آغاز سے قبل دس ہفتے ہیں۔ انتخابات کے اعلامیہ سے قبل کیا توقع کی جاسکتی ہے؟ میں بس قیاس کرسکتا ہوں۔ عوام میں ایسی باتیں ہورہی ہیں کہ تبدیلی ہونے والی ہے۔ یہ واضح ہے کہ حکومت اگر اس رجحان کو بدلنا چاہتی ہے تو اسے کچھ نہ کچھ کرنا پڑے گا۔ جمعہ کو میری اس تحریر کے دوران ایسی باتیں سننے میں آرہی ہیں کہ زیرغور اقدامات میں سود سے پاک فصل قرضے اور چھوٹے اور متوسط کسانوں کو نقدی کی منتقلی شامل ہیں۔ مان لیا جائے کہ حکومت عوامی شعبے کی بینکوں کو فصل قرضوں کیلئے رقم فراہم کرنے کی ہدایت دیتی ہے، تو وہ کیاش ٹرانسفرز کیلئے رقم کس طرح پائے گی؟ مالی خسارہ ختم نومبر 2018ء کو مقررہ نشانہ کا 115 فیصد تھا۔ اس کے باوجود مایوسی سے دوچار حکومت ہوسکتا ہے ’راحت کاریوں‘ کا اعلان کردے، رقم قرض لے، مصنوعی حساب میں ملوث ہو، اور سیاسی رجحان میں بدلاؤ کی امید کرے۔ ان اقدامات میں ناکامی پر حکومت رام مندر کی متنازعہ مقام پر تعمیر کیلئے آرڈیننس نافذ کرسکتی ہے۔ وہ سپریم کورٹ کی تحقیر والی حرکت کے علاوہ انتہائی اشتعال انگیز اور انتشار پسند اقدام ہوگا۔
عام طور پر کوئی حکومت انتخابات سے قبل 10 ہفتوں میں جو کچھ بھی کرے اسے عوام شک و شبہ کے ساتھ دیکھتے ہیں۔ رپورٹ کارڈ پر لفظ ’Fail‘ کو مٹانا آسان نہیں ہوگا۔