مودی کا اپوزیشن کو چیلنج

   

کم ظرف اگر دولت و زر پاتا ہے مانند حباب اُبھر کے اِتراتا ہے
کرتے ہیں ذرا سی بات میں فخر خسیس ، تنکا تھوڑی ہوا سے اُڑ جاتا ہے
مودی کا اپوزیشن کو چیلنج
وزیر اعظم نریندر مودی نے اپوزیشن جماعتوں کو چیلنج کیا ہے کہ وہ جموںو کشمیر کو خصوصی موقف عطا کرنے والے دفعہ 370 کو ‘ جسے بی جے پی حکومت نے برخواست کردیا ہے ‘ بحال کرنے کا اعلان کریں۔ نریندر مودی مہاراشٹرا میں ایک انتخابی جلسہ سے خطاب کر رہے تھے ۔ وہاں جو مسائل عوام کیلئے درپیش ہیں ان پر مودی نے کوئی تبصرہ کرنے کی بجائے ایک شاطر سیاستدان کی طرح حسب روایت عوام کو ایسے مسائل میں الجھانے کی کوشش کی ہے جن کو ہوا دینے کیلئے میڈیا کی بھی پوری کھیپ سرگرم کردی گئی ہے ۔ جو مسائل عوام کو درپیش ہیں انہیں عوام سے رجوع کرنے اور ان پر حکومت کے اقدامات اور فکر کو ظاہر کرنے کی بجائے تشہیری ہتھکنڈوں کے ذریعہ ان سے توجہ ہٹانے کی جو مہم مودی حکومت نے اپنی پہلی معیاد میں شروع کی تھی اس کا سلسلہ ہنوز جاری ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ سارے ملک میں معیشت انتہائی ناگفتہ بہ ہوگئی ہے ۔ ملک کے عوام کو بے طرح مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے ۔ خود مہاراشٹرا میں پی ایم سی بینک اسکام نے عوام کی زندگیوں سے عملا کھلواڑ کیا ہے ۔ لاکھوں روپئے بینک میں جمع رکھنے والوں کے پاس خرچ کیلئے چند سو روپئے تک دستیاب نہیں رہ گئے ہیں اور انہیں اپنے گذارہ کیلئے دوسروں سے مدد لینی پڑ رہی ہے ۔ بات صرف پی ایم سی بینک اسکام تک محدود نہیں ہے ۔ ریاست میں کرپشن کے مسائل بھی رہے ہیں۔ ایک وزیر کو دیویندر فرنویس حکومت سے علیحدہ کردیا گیا تھا ۔ انہیں اس بار ٹکٹ تک نہیں دیا گیا ہے ۔ اس کے علاوہ ریاست میں کسانوںکی خود کشی کے مسائل بھی ہیں۔ زرعی شعبہ کو درپیش بحران اور پریشانیاں ہیں ۔ نوجوانوں میں بڑھتی ہوئی بے روزگاری ہے ۔ بند ہوتی ہوئی صنعتوں کا مسئلہ ہے ۔ ٹھپ ہوتے ہوئے کاروبار اور تجارت باعث تشویش ہیں لیکن نریندر مودی اگر خطاب کرتے ہیں تو دفعہ 370 کی برخواستگی کی بات کرتے ہیں اور اس پر اپوزیشن کو چیلنج بھی کرتے ہیں۔ اگر مودی کو اپوزیشن کو چیلنج کرنا ہی ہے تو انہیں اپوزیشن کو یہ چیلنج کرنا چاہئے کہ وہ معاشی سست روی کے اپنے الزامات کو ثابت کر دکھائیں۔ یا پھر یہ کہیں کہ حکومت معاشی سست روی کے دعووں کو جھوٹا ثابت کرنے کیلئے تیار ہے ۔ لیکن مودی ایسا نہیں کرسکتے ۔
ایک جامع اور منظم حکمت عملی اور منصوبہ بندی کے ذریعہ عوام کو ایسے مسائل میں الجھا کر رکھ دیا گیا ہے جن کا ان کی روز مرہ کی زندگیوں سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ ملک کی سلامتی اور سکیوریٹی یقینی طور پر اہمیت کی حامل ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ہندوستان کی سکیوریٹی اور سلامتی کو کوئی خطرہ لاحق نہیں ہے ۔ اگر کوئی ہندوستان کی سمت بری نگاہ سے دیکھنے کی جراء ت کرتا بھی ہے تو ہمیں اپنی مسلح افواج میں پورا یقین کامل ہے کہ وہ اس طرح کی کوششوں کو کچل کر رکھ دیں گی ۔ ملک کی سکیوریٹی پر سیاست کرنا درست نہیں ہوسکتا ۔ سیاست ملک اور عوام کو درپیش مسائل پر ہونے کی ضرورت ہے ۔ وہ بھی ایک حد تک اور اس کے بعد ان مسائل کی یکسوئی پر مل بیٹھ کر غور کیا جانا چاہئے ۔ لیکن بی جے پی حکومت اپنے زر خرید میڈیا کی مدد لیتے ہوئے ایسے مسائل سے عوام کی توجہ ہٹانے میں لگی ہوئی ہے ۔ اس کے پاس مسائل کو حل کرنے کا کوئی طریقہ نہیں ہے اور نہ اسے حالات سمجھ میں آتے ہیں۔ شائد یہی وجہ ہے کہ ایک مرکزی وزیر ملک کی معیشت کو تین بالی ووڈ فلموں کی کامیابی کے پس منظر سے دیکھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اگر فلمیں اچھا کاروبار کر رہی ہیں تو یہ ملک کی معیشت کے بہتر ہونے کی علامت ہے ۔ حالانکہ مرکزی وزیر اپنے بیان سے دستبردار بھی ہوگئے ہیں لیکن اس سے پتہ چلتا ہے کہ حکومت معیشت اور معاشی مسائل کو کس پس منظر میں دیکھتی ہے ۔
دفعہ 370 کی برخواستگی ایک قومی پس منظر کا فیصلہ تھا اور اس پر پارلیمنٹ میں جس نے جو کہنا تھا وہ کہہ چکا ہے اور حکومت اپنے فیصلے پر عمل درآمد کرچکی ہے ۔ تاہم اس کو ایک ریاست کے مسائل کو نظر انداز کرتے ہوئے وہاں عوام کو گمراہ کرنے کیلئے استعمال کرنا مثبت سیاست نہیں کہی جاسکتی ۔ مہاراشٹرا کے مسائل کو ‘ فرنویس حکومت کی کارکردگی اور مستقبل میں کئے جانے والے کاموں کو عوام کے سامنے پیش کرنے کی ضرورت تھی لیکن نریندر مودی نے ایسا کرنے کی بجائے حسب روایت نعرہ بازی اور جذباتی استحصال ہی کو ترجیح دی ہے جس سے ان مسائل کے تئیں ان کی بے حسی اور لا تعلقی کا اظہار ہوتا ہے ۔